سورۃ النساء کے متعلق آپ میں سے اکثر حضرات کے علم میں یہ بات ہو گی کہ یہ سورۂ مبارکہ معاشرتی زندگی سے متعلق قرآن مجید کی انتہائی جامع سورت ہے. خاندانی اور معاشرتی مسائل سے متعلق اس سورۂ مبارکہ میں بڑی تفصیلی ہدایات آئی ہیں. اس کی پہلی آیت انسانی معاشرے خصوصاً گھریلو زندگی کے لیے جامع عنوان کا مقام رکھتی ہے. لہذا اب آئیے اس آیت کریمہ کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں‘ فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ : ’’اے بنی نوع انسان! اپنے اس ربّ (پروردگار اور پالن ہار‘ ہادی و مربی) کا تقویٰ اختیار کرو‘‘. اس کی پکڑ اور اس کے محاسبے اور اس کی سزا سے ڈرتے رہو!کیونکہ تم کو اس کے حضور کھڑے ہو کر اپنے ہر عمل کی جو تم سے صادر ہوتا ہے اور ہر اُس قول کی جو تمہاری زبان سے نکلتا ہے‘ جواب دہی کرنی ہے. بفحو ائے آیت قرآنی : مَا یَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ ﴿۱۸﴾ (قٓ) آیت کے اس حصہ میں نوع انسانی کو اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم اور ہدایت و دعوت دی گئی 

ہے.یہی تقویٰ دراصل دین کی جڑ اور اساس ہے‘ بلکہ نبی اکرم نے تو تقویٰ و پرہیزگاری کو ’’رأس الحکمۃ‘‘ قرار دیا ہے: رَاْسُ الْحِکْمَۃِ مَخَافَۃُ اللّٰہِ (۱دانائی اور حکمت اسی تقویٰ کی مرہونِ منت ہوتی ہے. آگے فرمایا: 

الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ 
’’ (اپنے اس رب کی پکڑ اور محاسبے سے ڈرتے رہو!) جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی جان میں سے اس کا جوڑا بنایا‘ اور ان دونوں سے کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو اس دنیا میں پھیلا دیا.‘‘ (مراد ہیں حضرت آدم ؑاور حضرت حوا جن سے یہ پوری نسل انسانی چل رہی ہے) . 

اس آیت کے پہلے حصے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کاملہ اور تخلیق تامہ کے حوالے سے نوع انسانی کو اپنا تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے‘ کیونکہ جو حقیقت نفس الامری کے اعتبار سے حقیقی مربی اور خالق ہے اسی کا یہ استحقاق ہے کہ اس کی نافرمانی سے بچا اور اس کی سزا سے ڈرا جائے. اس آیت کریمہ کے ابتدائی حصے میں اس اہم اور بنیادی امر کی طرف بھی رہنمائی دے دی گئی ہے کہ پوری نسل انسانی ایک ہی جوڑے (حضرت آدمؑ اور حوا) کی اولاد ہیں. گویا وحدت انسانی کی جو دو حقیقی بنیادیں ہیں وہ بھی اسی چھوٹے سے ٹکڑے میں انتہائی جامعیت سے بیان فرما دی گئیں. سارے انسان جو آفرینش عالم سے تاحال پیدا ہوئے اور جو تاقیام قیامت پیدا ہوں گے‘ ان کا رب اور خالق صرف اللہ ہے اور تمام انسان ایک ہی جوڑے کی ذریت حقیقی اور ایک ہی گھرانا ہے. دنیا نے رنگ و نسل اور لسان و وطن کی جو بنیاد قائم کر رکھی ہے 
(۲دولت و ثروت او ر وجاہت کو جو تفریق و امتیاز کا سبب بنا رکھا ہے تو اس کی امر واقعہ میں کوئی قیمت ہی نہیں‘ کیونکہ تمام انسان ایک ہی جوڑے کی نسل سے ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں. ہاں شرف کا ایک مقام ہے اور وہ ہے تقویٰ. اسی بات کو سورۃ الحجرات میں مزید وضاحت (۱) حکمت کی اساس خوفِ خدا ہے.

(۲) اس کو قرآن حکیم صرف تعارف کا ذریعہ قرار دیتا ہے. 
بایں الفاظ بیان فرمایا گیا: 
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۳﴾ 

’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنایا ہے‘ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو. اللہ کے نزدیک تم سب میں زیادہ باعزت وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار اور (اللہ سے) ڈرنے والا ہے. بے شک اللہ ہی سب کچھ جاننے والا پورا خبردار ہے. ‘‘

اس آیت سے واضح ہوا کہ خاندانی تفوق اور تفاخر کا زعم‘ زعمِ باطل ہے. اللہ تعالیٰ کے ہاں شرافت و کرامت کا اصل معیار تقویٰ ہے.

آگے چلیے! اسی آیت میں تقویٰ کا دوبارہ حکم دیا گیا ہے‘ چنانچہ فرمایا: 
وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ ’’اور اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ تم ایک دوسرے کو دیتے ہو اور بچو قطعِ رحم سے! ‘‘ غور کرنا چاہیے کہ اس آیت مبارکہ میں تقویٰ کے حکم کی تکرار کیوں ہے! ویسے تو زندگی کے تمام معاملات کی اصلاح کا دارومدار تقویٰ ہی پر ہے. تقویٰ نہیں ہے تو سیاست بھی بے ایمانی اور ظلم و تعدی بن جائے گی. تقویٰ نہیں ہے تو دین داری بھی سوداگری بن جائے گی. تقویٰ نہیں ہے تو تولنے والا ڈنڈی مارے گا‘ ناپنے والا کمی کرے گا‘ تاجر اور صنعت کار دھوکہ اور فریب سے کام لے گا‘ ضروریاتِ زندگی کی ذخیرہ اندوزی کر کے بازار میں اس کی مصنوعی قلت پیدا کرے گا اور پھر منہ مانگے داموں پر بازار میں لائے گا. اگر لوگوں میں تقویٰ نہیں ہے تو غذا اور ادویات میں ملاوٹ کریں گے‘ مشہور برانڈوں کی جعلی نقل بنائیں گے . تقویٰ نہیں ہے تو ملازم پیشہ اور مزدور مالکوں کی حق تلفی کریں گے اور کام چوری کریں گے. غرض کہ زندگی کے ہر معاملے اور ہر گوشے میں تقویٰ کی اشد ضرورت ہے. اس کے بغیر زندگی صحیح نہج پر استوارنہیں ہو گی. لیکن خاص طو ر پر گھریلو زندگی کا معاملہ اہم تر ہے . اگرچہ زندگی کے بقیہ گوشوں میں کسی حد تک قانون کی عمل داری ہو سکتی ہے‘ پولیس کا عمل دخل ہے‘ عدالتوں کا عمل دخل ہے‘ کسی پر ظلم و زیادتی ہوئی ہے تو داد رسی کے لیے عدالتوں کا کنڈا کھٹکھٹایا جا سکتا ہے اور کسی نہ کسی درجہ میں یہ مختلف عمل داریاں مؤثر بھی ہو سکتی ہیں ‘لیکن گھریلو زندگی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس دائرے میں قانون کے جو ادارے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ان کا عمل دخل بہت ہی کم ہے. 

گھر کی چاردیواری میں واقعہ یہ ہے کہ اگر تقویٰ موجود ہو توتبھی معاملات درست رہیں گے. ورنہ سوچیے کہ کس نظام میں یہ ممکن ہے کہ ہر گھر میں ایک نگران مقرر کیا جا سکے جو دیکھتا رہے کہ کوئی زیادتی تو نہیں ہو رہی‘ ایک دوسرے کے حقوق پامال تو نہیں ہو رہے.اگر کوئی شخص اپنی زبان کا غلط استعمال کرتا ہے‘ اٹھتے بیٹھتے وہ اس زبان کے ذریعے ظلم اور زیادتی کر رہا ہے‘ طعن و تشنیع کو اس نے اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے تو آخر کون سا قانون ہے جو اُس کے آڑے آ سکتا ہے اور کو ن سی پولیس ہے جو اسے اس سے باز رکھ سکتی ہے! پس معلوم ہوا کہ گھریلو زندگی کا دائرہ وہ ہے کہ جس میں تقویٰ اور آخرت کی جواب دہی کا شعور و ادراک اور ایمان و ایقان ہی معاملات کو درست رکھ سکتا ہے. جیسے فرمایا گیا: 
مَا یَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ ﴿۱۸﴾ (قٓ) ’’انسان کوئی لفظ منہ سے نہیں نکال پاتا مگر یہ کہ اس کے پاس ہی ایک ہوشیار نگران تیار ہوتا ہے!‘‘ یہ احساس اگر ہو گاتو دونوں فریق یعنی شوہر اور بیوی اور ان کے اعزہ و اقارب محتاط رہیں گے. شوہر بھی اپنے فرائض احساس ذمہ داری سے بجا لائے گا اور بیوی کے حقوق بحسن و خوبی ادا کرے گا اور بیوی بھی صحیح طور پر اپنے خاوند کے حقوق ادا کرے گی اور اپنے فرائض کو بجا لائے گی.

اعزہ و اقارب بھی اپنے اپنے ان فرائض و حقوق کا لحاظ رکھیں گے جو شریعت حقہ نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں. لہذا عائلی اور خاندانی زندگی میں تقویٰ کو وہ مقام حاصل ہے جس کے بغیر گھر گرہستی اور خاندانی نظام کا پورے سکون و اطمینان سے چلنا عملاً ناممکن اور عقلاً محال ہے.

اب آئیے! آیت کریمہ کے اس حصے کو مزید سمجھنے کی کوشش کریں. میں نے اب تک وَاتَّقُوا اللّٰہَ پر اس لحاظ سے گفتگو کی ہے کہ اس آیت میں تقویٰ کا حکم بہ تکرار کیوں آیا ہے. آیت کا پورا ٹکڑا یوں ہے: 
وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ ’’اور ڈرو اُس اللہ سے جس کا واسطہ تم ایک دوسرے کو دیتے ہو اور بچو قطع رحم سے!‘‘ یہاں بڑا لطیف اور مؤثر انداز اختیار فرمایا گیا ہے. عام طور پر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ اکثر جب کہیں گھریلو معاملات میں ناچاقی ہو جائے تو عدم موافقت اوراختلاف کو ختم کرانے اور مٹانے کے لیے بالآخر خدا کا واسطہ دیا جاتا ہے. خاندان کے بزرگ دونوں فریقوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ’’خدا کے واسطے باز آ جاؤ‘ خدا کے لیے مان جاؤ‘ اختلافات ختم کرو‘ صلح صفائی کر لو‘ خدا کے واسطے ایک دوسرے کی زیادتی کو معاف کر دو‘ خدا کے لیے آئندہ احتیاط کرو‘ ایک دوسرے کے حقوق اور جذبات و احساسات کا خیال رکھو‘ خدا کے لیے درگزر سے کام لو ‘وغیرہ‘‘ تو جس خدا کا تم کو واسطہ دیا جاتا ہے یا جس خدا کی تم ایک دوسرے کو دہائی دیتے ہو‘ اگر اس خدا کا تقویٰ تم پہلے سے اختیار کرو‘ اس کے احکام پر کاربند رہو‘ جو حدود اس نے معین کی ہیں ان پر قائم رہو تو ایسے جھگڑے پیدا ہونے کی صورت بہت کم ہو جائے گی‘ اور اگر پیدا ہوئے بھی تو فوری طو ر پر نمٹ بھی جائیں گے اور طے بھی ہو جائیں گے. پس جس خدا کا تم واسطہ دیا کرتے ہو‘ اس کے احکام‘ اس کے اوامر و نواہی اور اس کی ہدایات و تعلیمات کی پابندی کرو. یہی اصلاً تقویٰ کی روش ہے‘ یہی دین میں مطلوب ہے اور اس روش کو اختیار کرنے کی برکت سے گھریلو جھگڑے اول تو کھڑے ہی نہیں ہوں گے اور اگر ہو بھی گئے تو اللہ کے فضل سے جلد نمٹ جائیں گے.

آیت کے آخری حصہ میں فرمایا: 
وَالْاَرْحَامَ ’’اورقطع رحمی سے بھی بچو!‘‘ رحمی رشتوں کا احترام اور ان کا پاس ہمارے دین میں بڑی اہمیت کا حامل ہے. رحمی رشتوں کو کاٹنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے. اسلام کو ایک بہت ہی منظم اور صالح معاشرہ قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بطور نظام نازل فرمایا ہے: اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ اسلام ایک ایسا معاشرہ وجود میں لانا چاہتا ہے جس میں باہمی الفت ہو‘ مودّت ہو‘ ایک دوسرے کے لیے ہمدردی ہو‘ ایک دوسرے کے لیے اخوت اور ایک دوسرے کے لیے احترام و اکرام کا جذبہ موجود ہو. اسی مقصد کے لیے اس نے خاندان کے ادارے کو مضبوط کیا ہے. اس خاندان کے ادارے کے دو عرض (dimensions) ہیں. ایک طرف والدین اور اولاد کا تعلق ہے‘ دوسری طرف شوہر اور بیوی کا تعلق ہے. لہٰذا اگر ان دونوں اطراف کو صحیح بنیادوں پر استوار کر لیا جائے تو خاندانی نظام درست رہے گا‘ اور اگر کسی معاشرے میں معتدبہ تعداد درست اور صالح خاندانوں کی موجود ہو تو معاشرہ بھی صالح ہو گا اور ایک صالح معاشرے کی برکات پورے طور پر روبہ عمل آئیں گی اور ان کا کاملاً ظہور ہو گا. والدین اور اولاد کے حقوق کی قرآن حکیم میں بڑی اہمیت بیان ہوئی ہے. اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ ملحق کر کے والدین کے حق کا ذکر فرمایا ہے. چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۲۳ میں فرمایا: وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ ’’اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو.‘‘ سورۂ لقمان کی آیت ۱۴ میں فرمایا: اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ ’’تو میرا شکرگزار بن اور اپنے والدین کا بھی!‘‘ اس سے اندازہ کیجیے کہ والدین کے حقوق کی کس قدر اہمیت و تاکید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حق سے ملحق کر کے والدین کے حقوق کا ذکر فرماتا ہے.

اسی طرح اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان محبت و الفت اور مودّت کا صحیح تعلق قائم ہو. دونوں اپنے فرائض کو ادا کر رہے ہوں اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پورے اہتمام کے ساتھ ہو رہی ہو جس کی برکت سے ان شاء اللہ کوئی نزاع پیدا ہی نہیں ہو گا. یہ ہیں خاندان کے ادارے کے دو عرض. تیسرا عرض ہے قرابت داری کے رشتوں کا احترام اور ان کے حقوق کا لحاظ اور ان کی ادائیگی. چنانچہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آپ دیکھیں گے کہ والدین کے بعد قرابت داروں کے حقوق کا ذکر آئے گا. جیسے فرمایا: وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ (بنی اسراء یل:

۲۶یہاں وَالْاَرْحَامَ فرما کر ان تمام رحمی رشتوں کی پاس داری کرنے‘ لحاظ رکھنے‘ ان کی ادائیگی کا اہتمام کرنے اور ان کی پامالی سے بچنے کی ہدایت دے دی گئی. اس آیت مبارکہ کے آخر میں فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿۱﴾ ’’بے شک اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے!‘‘ یعنی جان لو کہ تمہارا ایک ایک عمل اللہ کی نگاہ میں ہے. یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ تمہارے عمل کا کوئی محاسبہ نہیں ہو گا اور تمہارے اعمال و اقوال کا کوئی ریکارڈ تیار نہیں ہو رہا. بلکہ جیسا کہ میں سورۃ ق ٓکی یہ آیت دوبار آپ کو سنا چکا ہوں کہ : مَا یَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ ﴿۱۸﴾ جو بات بھی زبان سے نکلتی ہے وہ ریکارڈ ہو رہی ہے. لکھنے والے موجود ہیں جو اس کو لکھ رہے ہیں! یہی بات سورۃ الانفطار میں فرمائی: وَ اِنَّ عَلَیۡکُمۡ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾یَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾ ’’اور بلاشبہ تم پر نگران مقرر ہیں‘ ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل و عمل کو جانتے ہیں.‘‘