خدا فراموشی اور ہدایت ربانی سے محرومی کے باعث مغربی تہذیب جس کرب اور المیہ سے دوچار ہے‘ ہماری عظیم اکثریت کو اس کا پتا ہی نہیں. ہم ان ممالک کی ظاہری شان و شوکت اور جاہ و حشمت دیکھ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دنیا میں ان سے زیادہ خوش نصیب کوئی نہیں. ’’دُور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں‘‘ کے مصداق ان کے ٹھاٹھ باٹھ اور تمدنی ترقی سے ہم اتنے مرعوب ہیں کہ ہمیں ان کے آلام و مصائب کا اندازہ ہی نہیں ہوتا اور ہم اس مغالطے میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہاں ہر طرح سکھ‘ چین اور سکون و اطمینان ہے. حالانکہ اس خداناآشنا تہذیب کا قریبی مشاہدہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ان خدافراموش ممالک میں خاندانی نظام درہم برہم ہو چکا ہے‘ جس کی وجہ سے پورا معاشرہ انتہائی کرب اور دکھ میں مبتلا ہے. وہاں آزادانہ شہوت رانی کا دور دورہ ہے ‘لہذا شادی بیاہ کا بکھیڑا کون مول لے.

جن لوگوں میں سابقہ روایات کا کچھ پاس ہے‘ وہ شادی کا بندھن اختیار کرتے ہیں ‘تو اُن میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ شوہر بیوی سے نالاں اور اس کی عصمت و عفت کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلاہے تو بیوی شوہر سے بیزار اور اس کے باوفا ہونے کے بارے میں شکوک میں مبتلا. مزید برآں اوّل تو مانع حمل تدابیر سے اولاد کے جھمیلے سے بچاؤ ہوتا ہے‘ لیکن کسی کو اگر اولاد کی چاہت ہوئی بھی تو اکثریت کے بچے نرسریوں (Nurseries) میں پرورش پاتے ہیں. لہذا محبت مادری اور شفقت پدری سے یکسر محروم اس اولاد کے دل والدین کی محبت اور احترام سے بالکل خالی ہوتے ہیں. والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو ان کے دلوں میں اولاد کی محبت کا خوابیدہ جذبہ بیدار ہوتا ہے ‘لیکن اولاد کا حال یہ ہوتا ہے کہ ماں باپ کی خدمت تو کجا‘ ان سے ملنے اور ان کے ساتھ کچھ لمحات گزارنے کے لیے بھی ان کے پاس فرصت اور وقت ہی نہیں. بوڑھے ماں باپ اولاد کی شکل دیکھنے کے لیے سالوں ترستے رہتے ہیں. وہاں ایسے بوڑھے مردوں اور عورتوں کے لیے جن کی بیویاں یا شوہر وفات پا چکے ہوں اور جو تنہا رہ گئے ہوں‘ ہاسٹل قائم ہیں تاکہ وہ دوسرے بوڑھوں اور بوڑھیوں کی معیت میں تنہائی کے احساس کو مٹا سکیں. یہ ہے خاندانی نظام کے برہم ہونے کی نقد سزا جو مغربی معاشرہ بھگت رہا ہے.

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی جو لوگ مغربی تہذیب کے اندھے مقلد ہیں اور اس کی تمدنی ترقی سے جن کی نگاہیں خیرہ ہو چکی ہیں‘ جن کے ذہن و قلب اس خدا ناآشنا تہذیب سے مرعوب ہیں‘ پھر یہ لوگ مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے دین کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں وہ بھی اسی المیہ اور کرب میں مبتلا ہیں کہ جس اولاد کو بڑے لاڈ پیار سے پالا پوسا تھا‘ اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی‘ جس کے لیے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیا تھا‘وہ اولاد ان کے حقوق سے قطعاً ناآشنا ہوتی ہے. ان میں سے اکثریت کو مکافاتِ عمل کے اسی قاعدے سے سابقہ پیش آتا ہے کہ جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے. یہ لوگ اولاد کی شکل دیکھنے کو ترستے ہیں اور یہ حسرت لیے ہوئے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد بڑھاپے میں ان کے پاس بیٹھے‘ ان کو کچھ وقت دے اور ان کی دل جوئی کرے. جب ماں باپ کے ساتھ یہ ناروا رویہ اور سلوک ہو تو بھلا قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا کیا سوال! یہ ہے ہدایت ربانی کو پس پشت ڈالنے کی نقد سزا جو دنیا ہی میں بھگتنی پڑتی ہے. آخرت میں دائمی طور پر ایسے لوگ جس دردناک انجام سے دوچار ہونے والے ہیں‘ وہ علیحدہ ہے.