روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبۂ نکاح میں نبی اکرم سورۃ آل عمران کی آیت ۱۰۲ کی بھی قراء ت فرماتے تھے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کا تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے اور تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم (اللہ کے) فرمانبردارہو.‘‘

غور فرمائیے کہ اس آیت میں بھی اہل ایمان کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے اور اس حکم کو مؤکد کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تقویٰ بھی معمولی نوعیت کا مطلوب نہیں ‘بلکہ پوری حدود و قیود کے ساتھ مطلوب ہے. 
’’حَقَّ تُقٰتِہٖ‘‘ کی شان والا تقویٰ درکار ہے. ہم اور آپ تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر سے سرسری طور پر گزر جاتے ہیں اور ہمیں خیال ہی نہیں آتا کہ یہ حکم ہم سے کیا مطالبہ کر رہا ہے ‘لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے جب یہ آیت سنی تو وہ لرز اٹھے. وہ جانتے تھے کہ تقویٰ کا اصل حق ادا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے. انہوں نے نبی اکرم سے فریاد کی کہ ہم میں سے کون ہو گا جو تقویٰ کا پورا حق ادا کر سکے! اللہ تعالیٰ نے ان مؤمنین صادقین کی دل جوئی اور اطمینان کے لیے سورۃ التغابن میں وضاحت فرمائی کہ: فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ (آیت ۱۶یعنی انسان حد استطاعت تک ہی مکلف ہے. انسان خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں تقویٰ کی روش اختیار کرنے کی سعی کرتا رہے‘ شعوری طور پر اس کی نافرمانی سے مجتنب رہے تو بربنائے طبع بشری اس سے جو لغزشیں ہوں گی ان کو اللہ تعالیٰ اپنی شانِ غفاری و رحیمی کے طفیل معاف فرما دے گا. لیکن کس کو کتنی استطاعت ملی ہے‘ اس کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا. بندہ اگر اس مغالطہ میں مبتلا ہو گیا کہ مجھ میں فلاں فرائض دینی انجام دینے کی استطاعت ہی نہیں توجان لیجیے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے اور ایسے شخص کو آخرت میں سخت ترین محاسبہ سے لازماً سابقہ پیش آ کر رہے گا‘ اور ایسا شخص انجام کے لحاظ سے سخت خسارے میں رہے گا.

خطبۂ نکاح کے موقع پر اس آیت کی قراء ت کی حکمت بادنی ٰ تأمل سمجھی جا سکتی ہے. میں نبی اکرم کی یہ حدیث آپ کو سنا چکا ہوں کہ: 
رَاْسُ الْحِکْمَۃِ مَخَافَۃُ اللّٰہِ نیز میں عرض کر چکاہوں کہ ایک بندۂ مومن جادۂ حق پر تقویٰ کے بغیر قائم رہ ہی نہیں سکتا. مزید یہ کہ ہمارے دین میں تقویٰ کا جو مفہوم ہے وہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی بیان کر چکاہوں. ان تمام امور کو سامنے رکھئے اور پھر غور کیجیے کہ خاندانی اور عائلی زندگی میں تقویٰ ایک مسلمان کے لیے کتنی عظیم اہمیت کا حامل ہے. لہذا خطبہ ٔ نکاح کے موقع پر اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت ایک ذی ہوش اور باشعور انسان کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے اور اس کو زندگی کے اس نئے دائرے میں قدم رکھتے ہی یہ احساس ہو جاتا ہے کہ کتنی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اس کے کاندھوں پر آ رہا ہے اور اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ زندگی کی اس نئی راہ کے لیے اس کا اصل زادِسفر اگر کچھ ہے تو وہ اللہ کے تقویٰ کے سوا کچھ نہیں.

آگے چلیے! اسی آیت کے اختتام پر فرمایا کہ: 
وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ زندگی کے سفر میں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کتنی مہلت عمر لے کر آیا ہے. لہذا آیت کے اس حصہ میں یہ لطیف حقیقت بھی واضح فرما دی کہ اللہ کا تقویٰ صرف عارضی اور وقتی طور پر مطلوب نہیں ہے ‘بلکہ یہ ساری زندگی کا معاملہ ہے. اسی تقویٰ اور فرمانبرداری کی روش ہی پر جینا اور مرنا ہے. یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ابھی تو جوانی اور شباب کا عالم ہے‘ امنگوں اور ولولوں کا زمانہ ہے‘ لہذا ابھی تو دل کے ارمان اور چاہت نکالنے کا دور ہے. نہیں‘ ہرگز نہیں! تم کو کیا معلوم کہ قضائے الٰہی کب آ جائے اور کب مہلت عمل ختم ہوجائے. لہذا زندگی کے ہر ہر لمحے کو خدا کی فرمانبرداری اور اطاعت میں گزارنے کا عزمِ مصمم رکھو اور اطاعت شعاری کی روش ہمہ وقت اختیار کیے رکھو‘ تاکہ جب بھی موت کا فرشتہ آئے‘ اور وہ اچانک بھی آ سکتا ہے‘ تو اس وقت بھی تم متقی اور فرمانبردار ہو اور اسی حال میں آخرت کی منزل کی طرف رحلت کرو جو ہر انسان کی حقیقی زندگی کا دائمی گھر ہے: 
وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ (العنکبوت)