روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبۂ نکاح کے آخر میں نبی اکرم سورۃ الاحزاب کی ان دو آیات کی قراء ت فرمایا کرتے تھے: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾ 
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور درست بات کہا کرو! اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سدھار دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا .اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی.‘‘

غور کا مقام ہے کہ یہاں بھی پہلی آیت کے آغاز میں اسی تقویٰ کے اختیار کرنے کے حکم کا اعادہ ہے جو سورۃ النساء کی پہلی آیت میں دو بار اور سورۃ آل عمران کی آیت ۱۰۲ میں 
حَقَّ تُقٰتِہٖ ٖکی تاکید کے ساتھ ایک بار آ چکا ہے. اب اس آیت میں اس کا پھر اعادہ ہو رہا ہے. اس سے ہر مسلمان بالخصوص اس دولہا کو بخوبی معلوم ہو سکتا ہے جو زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہوتا ہے کہ گھر گرہستی کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کو ہر لمحہ‘ ہر لحظہ اور ہر قدم پر ملحوظ رکھنا کتنا ضروری ہے. گویا عائلی زندگی کی مسرت و راحت اور سکون و اطمینان کا انحصار ہی تقویٰ کی روش پر ہے. اس کے بغیر یہ متأہل زندگی باعث راحت اور شادمانی ہونے کے بجائے باعث کلفت و پریشانی بن سکتی ہے. اسی آیت کریمہ میں دوسرا حکم ہے: وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾ ’’اور بات کرو درست اور سیدھی‘‘! میں منہ سے نکلنے والی بات کی اہمیت کا اپنی تقریر کی ابتدا میں اجمالاً ذکر کر چکا ہوں. اب اس موقع پر اس حکم ربانی کی حکمت کی تفہیم کے لیے مجھے قدرے تفصیل سے کچھ عرض کرنا ہے.