آپ یقینا اس بات سے اتفاق کریں گے کہ بین الانسانی معاملات میں اکثر و بیشتر زبان کا غلط استعمال بہت سے فتنوں کو جنم دیتا ہے. انسانی تعلقات میں نفرت اور بیر کا بیج بونے اور پھر اس کو نشوونما دینے اور دلوں میں زہر گھولنے میں زبان کے غلط استعمال کا بڑا دخل ہوتا ہے. نبی اکرم نے اس کو ’’حصائد الالسِنۃ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ‘یعنی یہ زبانوں کی کھیتیاں ہیں‘ جو کاٹنی پڑتی ہیں. زبان آپ کے قابو میں نہ ہو اور اس کا غلط استعمال ہو تو یہی بات بہت سی خرابیوں‘ برائیوں اور تعلقات میں بگاڑ کا سبب بنتی ہے. عربی کی کہاوت ہے کہ: ’’تلوار کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں لیکن زبان کا زخم مندمل نہیں ہوتا!‘‘ ہم میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ تجربہ ہو گا کہ اس کہاوت میں بڑی صداقت ہے.

واقعہ یہ ہے کہ جسمانی زخم بھر جاتے ہیں‘ لیکن زبان کے گھاؤ کا بھر جانا اور مندمل ہو جانا مشکل‘ بلکہ تقریباً ناممکن ہے. اس لیے کہ زبان کا گھاؤ براہ راست دل پر جا کر لگتا ہے‘ جس کے اِندمال کا کوئی سوال ہی نہیں. شوہر او ر بیوی‘ ساس اور بہو اور اعزہ و اقارب کے مابین جو پیچیدہ اور لاینحل مسائل و تنازعات کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ان کا جب تجزیہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر کی اصل جڑ اور بنیاد زبان کا غلط استعمال ہوتا ہے. بین الانسانی معاملات میں قولاً سدیداً اور قول حسن کی اہمیت اس بات سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ سورۃ البقرۃ میں بنی اسرائیل سے لیے جانے والے جس عہد و پیمان اور میثاق کا ذکر ہے اس میں زبان کاصحیح استعمال بھی شامل ہے. چنانچہ فرمایا: 

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ ۟ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ ذِی ‌الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا وَّ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ (آیت ۸۳
یاد کرو! اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا‘ ماں باپ کے ساتھ اور رشتہ داروں کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنااور لوگوں سے درست اور بھلی بات کہنا. نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ اداکرنا.‘‘