معاشرتی زندگی کوصحیح خطوط پر استوار کرنے کے لیے سورۃ الحجرات میں بھی بڑے تفصیلی احکام دیے گئے ہیں اور ان تمام مفاسد کے انسداد کے لیے ہدایات دی گئی ہیں جو ایک خاندان اور معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں.ان تمام مفاسد کا تعلق زبان اور قول ہی سے ہے. وہاں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۱۱﴾ 
’’اے ایمان والو!نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں‘ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں. اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں‘ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں. اور آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو. ایمان لانے کے بعد برائی کا زبان پر آنا بھی بہت ہی بری بات ہے. جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں.‘‘

اسی سورت کی اگلی آیت کے درمیان غیبت سے منع کیا گیا اور اس فعل کی شناعت کو ظاہر کرنے کے لیے وہ تشبیہہ دی گئی جس سے زیادہ دل میں کراہت پیدا کرنے والی کوئی تشبیہہ دینا ممکن ہی نہیں. فرمایا: 

وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ (آیت ۱۲
’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے. کیا تمہارے اندر کوئی ایسا بھی ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ اس سے تو تم خود گھن کھاؤ گے.‘‘

خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ان آیات میں جن باتوں سے روکا گیا ہے ان کا تعلق زبان ہی سے ہے. کسی کا تمسخر کرنا ہو‘ مذاق اڑانا ہو تو اس کا صدور بھی اکثر زبان ہی سے ہوتا ہے.ویسے اس میں کسی کی نقل کرنا‘ کسی کی صورت یا لباس یا کسی کام پر ہنسنا‘ یا کسی کے نقص یا عیب کی طرف لوگوں کو اس طرح توجہ دلانا کہ لوگ اس پر ہنسیں‘ یہ سب بھی مذاق اڑانے میں داخل ہیں‘ لیکن مذاق اڑانے کا بیشتر تعلق زبان ہی سے ہے.

آگے فرمایا: 
وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ’’آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے پر عیب لگاؤ‘‘! لفظ ’’لمز‘‘ بڑا وسیع المعانی لفظ ہے. اس کے مفہوم میں طعنہ زنی کرنا‘ چوٹیں کرنا‘ پھبتیاں کسنا‘ الزام لگانا‘ اعتراض جڑنا اور عیب چینی کرنا یہ سب افعال شامل ہیں. آگے فرمایا: وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ ’’کسی کو برے القاب سے مت پکارو‘‘ .کسی کو ایسا لقب دینا جس سے اس کی تذلیل ہوتی ہو. مثلاً کسی کو چڑانے کے لیے کوئی نام رکھ دیا‘ جس کو عرف عام میں ’’چڑ‘‘ یا چھیڑ کہتے ہیں. کسی کو بونا کہہ دیا‘ کسی کو لنگڑا‘ لولا‘ کانا‘ اندھا اور بہرا کہہ دیا‘ کسی کو اس کے اپنے یا اس کے ماں باپ یا خاندان کے کسی حقیقی یا غیرحقیقی عیب یا نقص سے منسوب کر دیا‘ یا کسی کو تمسخر اور مضحکہ خیز نام سے موسوم کر دیا. ایسے سب افعال تنابز بالالقاب میں شمار ہوں گے. غیبت کو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہہ دے کر اُس کی شناعت ظاہر کی گئی ہے. غیبت پیٹھ پیچھے کی جاتی ہے. اور جس طرح مردہ بھائی کے گوشت کھانے اور نوچنے پر وہ اپنے دفاع پر قادر نہیں ہوتا اسی طرح وہ بے چارہ جس کی غیبت کی جا رہی ہوتی ہے‘ اس غیبت سے بالکل بے خبر ہوتا ہے اور اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کہاں اور کس نے اس کی عزت و وقار کو مجروح کیا ہے‘ اور اس طرح وہ بھی اپنے دفاع سے قاصر ہوتا ہے.

مزید غور سے دیکھئے کہ ایسے تمام افعال کو ’’فسق کا نام زبان پر لانا‘‘ قرار دیا گیا ہے. فسق دین کی اصطلاح میں اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی حدود سے نکل جانے کو کہتے ہیں. چنانچہ فرمایا گیا کہ ایمان لانے کے بعد ایسے کام کرنا عدالت الٰہی میں فسق میں نام پیدا کرنا قرار پائے گا. 
بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ سورۃ الحجرات کی ان آیات میں جن برائیوں اور گناہوں کے لیے نواہی (اجتناب کرنے‘ بچنے‘ رکنے) کے احکام آئے ہیں یہ خرابیاں وہ ہیں جن کے ارتکاب کا ہمارے معاشرے بالخصوص مجلسی اورگھریلو زندگی میں بڑا چلن ہے. کھانے کے دسترخوان پر چند لوگ جمع ہوں تو ماکولات کے ساتھ جو لذیذ ترین ڈش ہوتی ہے وہ یہی ہمزولمز‘ تنابز بالالقاب‘ تمسخر و استہزاء اور غیبت ہوتی ہے. عورتیں اس مرض میں زیادہ مبتلا نظر آتی ہیں. اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی چند عورتیں جمع ہوں گی تو انہی برائیوں کا ارتکاب ہو گا. کسی کا چھیڑنے کے لیے نام رکھ چھوڑا ہے‘ کسی کو طعنہ دے دیا ہے‘ کسی کا مذاق اڑا دیا ہے‘ کوئی چبھتا ہوا فقرہ کس دیا ہے‘ کسی کی چغلی کھائی ہے. عام طور پر اس قسم کی باتیں خوش گپیوں کے لیے light mood میں کہی جاتی ہیں اور اکثر آدمی ان کو ہنس کر ٹال بھی دیتا ہے. لیکن ہو سکتا ہے کہ جس کے ساتھ یہ معاملہ کیا جا رہا ہو‘ اس کی اس وقت ایسی ذہنی و نفسیاتی کیفیت ہو کہ یہ بات اس کے دل پر چرکا اور گہرا داغ لگانے کا سبب بن جائے اور ایسا گھائو ڈال دے جس کا اِندمال ممکن نہ ہو.