میں چاہتا ہوں کہ زبان کو احتیاط سے استعمال کرنے کے ضمن میں نبی اکرم  کی احادیث شریفہ بھی آپ کو سنا دوں جن سے آپ کو اور خاص طور پر دولہا اور اس کے اعزہ و اقارب کو معلوم ہو جائے کہ زبان کے درست استعمال میں کیا خیر ہے‘ ایسے لوگوں کے لیے کیا بشارت ہے اور زبان کے غلط اور غیرمحتاط استعمال کی کیا خرابی ہے اور ایسے لوگوں کے لیے عقوبت کی کیا وعید ہے!

پہلی حدیث صحیح بخاری کی ہے‘ جو قرآن مجید کے بعد اہل سنت کے نزدیک صحیح ترین کتاب ہے. حدیث یہ ہے:

عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : مَنْ یَّـضْمَنْ لِیْ مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ اَضْمَنْ لَہُ الْجَنَّۃَ 
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’جو مجھے (ان دو چیزوں کی) ضمانت دے جو اس کے دو گالوں کے درمیان ہے (یعنی زبان) اور جو اس کی دو ٹانگوں کے درمیان ہے (یعنی شرم گاہ) تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں.‘‘

ہم سب کے لیے اور خاص طور پر دولہا کے لیے اس حدیث میں بڑا سبق ہے. نبی اکرم نے زبان کے صحیح استعمال کرنے اور جنسی تقاضے کو جائز طور پر پورا کرنے والے کے لیے جنت کی ضمانت اپنے ذمہ لی ہے.

دوسری حدیث کے راوی ہیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہاور اس کو امام احمد بن حنبل‘ امام ترمذی اور امام ابن ما جہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے اپنی اپنی کتب احادیث میں درج کیا 
ہے. یہ ایک طویل حدیث ہے‘ جس میں حضرت معاذ بن جبلؓ کے اس سوال پر کہ’’ اے اللہ کے رسولؐ ! مجھے ایک ایسے عمل کی خبر دیجیے جو مجھ کو جنت میں داخل کر دے اور آگ سے دور رکھے‘ ‘ جواب میں نبی اکرم نے دین کے تمام امورِ مہمات کی تعلیم دی‘ جن میں توحید کے ساتھ اللہ کی عبادت و اطاعت‘ اقامت صلوٰۃ‘ ایتائے زکوٰۃ‘ صومِ رمضان اور حج بیت اللہ کے فرائض دینی بھی شامل ہیں. مزید برآں آپؐ نے نفلی روزے‘ صدقے اور نوافل بالخصوص تہجد کے فضائل بیان فرمائے اور دین کی بلند ترین چوٹی اور اعلیٰ ترین نیکی (highest virtue) جہاد فی سبیل اللہ کو قرار دیا . ان امور کی تعلیم کے بعد آنحضور نے جو آخری ارشاد فرمایا اس کا چونکہ میری اس گفتگو سے براہ راست تعلق ہے ‘لہذا میں اس کو متن کے ساتھ پیش کرتا ہوں. آپ نے فرمایا:

ثُمَّ قَالَ اَلَا اُخْبِرُکَ بِمَلَاکِ ذٰلِکَ کُلِّہٖ؟ قُلْتُ: بَلٰی یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! فَاَخَذَ بِلِسَانِہٖ وَقَالَ: کُفَّ عَلَیْکَ ھٰذَا فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! وَاِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَـکَلَّمُ بِہٖ؟ فَقَالَ: ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ یَا مُعَاذُ! وَھَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ اَوْ عَلٰی مَنَاخِرِھِمْ اِلاَّ حَصَائِدُ اَلْسِنَتِھِمْ
’’پھر (نبی اکرم نے) فرمایا: (اے معاذ ؓ !) کیا میں تجھ کو نہ بتلاؤں وہ بات جس پر اس (دخولِ جنت) کا مدار ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں یا نبی اللہ! پس آپ نے اپنی زبان پکڑ لی اور فرمایا: اس کو تو بند کر لے!‘‘

میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! کیا ہم اس چیز کے ساتھ پکڑے جائیں گے جو ہم بولتے ہیں؟ فرمایا ’’گم کرے تجھ کو تیری ماں اے معاذؓ ! لوگوں کو آگ میں ان کے منہ کے بل یا ناک کے بل ان کی زبانوں کی کھیتیاں ہی گرائیں گی‘‘. یعنی زبانوں کی کھیتیاں ہی ہوں گی جو وہ آخرت میں کاٹیں گے.