ہم نے زبان کے غلط استعمال کو ہنسی مذاق سمجھ رکھا ہے اور طعن و تشنیع کو اپنے معمولات میں شامل کر رکھا ہے. حالانکہ اس کی ہلاکت خیزیاں اتنی ہیں کہ یہ فعل انسانوں کے تعلقات بگاڑتا ہے اور یہ بگاڑ بسا اوقات قطع تعلقات اور مستقل نفرت و عداوت پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے اور یہ عداوت مستقل شکل اختیار کر لیتی ہے .کتنے ہی خاندان ہیں جو زبان کے غلط استعمال سے تباہ ہو جاتے ہیں‘ کتنی ہی سہاگنوں کے سہاگ اجڑ جاتے ہیں اور وہ معلق ہو کر اپنی جوانی کو ماں کے گھٹنے سے لگ کر گزار دیتی ہیں‘ کتنے ہی مرد و عورت ہیں جو بے راہ روی اختیار کر لیتے ہیں‘ کتنے معصوم بچے ہیں جن کی اٹھان غلط رخ پر ہوتی ہے‘ وہ آوارہ ہو کر معاشرے کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں.

ان تمام خرابیوں کا علاج سورۃ الاحزاب کی ان دو آیات میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تجویز فرما دیا گیا: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾ ’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور درست بات کہا کرو.‘‘ اس تقویٰ ٔ الٰہی اور قولِ سدید کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال درست اور اصلاح یافتہ کرے گا اور تمہاری خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرما دے گا: یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ جو شخص گھر کی زندگی میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اور زبان کے استعمال میں محتاط رہے گا ظاہر ہے کہ زندگی کے دوسرے تمام معاملات میں اس کی شخصیت میں اس عمل کی برکات کا ظہور ہو گا. اس کی زندگی دو رنگی نہیں ہو گی‘ جس کا عام طور پر مشاہدہ ہوتا ہے کہ ایک شخص باہر والوں کے لیے بڑا خوش مزاج‘ بااخلاق‘ حلیم و شفیق اور خلیق ہے ‘لیکن گھر والوں کے لیے فرعونِ بے سامان بنا رہتا ہے. اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ‘ؐ کو ایسے دو رخے‘ دوغلی اور دو رنگی زندگی اختیار کرنے والے قطعی ناپسند ہیں.
نبی اکرم نے تو گھر والوں‘ بیوی بچوں‘ ماں باپ اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو افضل ترین انسانوں میں سے قرار دیا ہے. چنانچہ امام ترمذی ؒ اور امام دارمیؒ نے اپنی اپنی کتب حدیث میں یہ روایت درج کی ہے: 

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ‘ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ 
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ رسول اکرم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کا اپنے گھر والوں کے ساتھ سلوک بہترین ہے اور میں تم سے اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں!‘‘

یہی روایت امام ابن ما جہ ؒ نے حضرت عبداللہ بن عباس i سے روایت کی ہے. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کا ہمارے دین میں کتنا ارفع و اعلیٰ مقام ہے.