حضرات! ہمارے علماء و خطباء نکاح میں ان آیات کی قراء ت کے بعد احادیث میں سے دو حدیثوں کے دو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی پڑھا کرتے ہیں. چنانچہ میں نے بھی وہ ٹکڑے آپ کو سنائے ہیں. عام طور پر بعض حضرات ان کو اس طرح پڑھ دیتے ہیں کہ یہ ایک ہی حدیث معلوم ہوتی ہے. اچھی طرح جان لیجیے کہ یہ دو حدیثوں کے علیحدہ علیحدہ ٹکڑے ہیں‘ مکمل احادیث نہیں ہیں. پہلا ٹکڑا اس حدیث کا ہے جس کو امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ ’’نکاح میرا طریقہ اور میری سنت میں سے ہے!‘‘اس میں درحقیقت اس راہبانہ تصور کی نفی اور تردید کی جا رہی ہے جو دنیا میں رائج رہا ہے.

رہبانیت کا یہ تصور آپ کو عیسائیوں میں بھی نظر آئے گا اور ہندوؤں میں بھی. دنیا کے اور بھی مذاہب ہیں جیسے بدھ مت‘ جین مت‘ ان میں بھی یہ تصور مشترک ملے گاکہ یہ نکاح اور گھر گرہستی کی زندگی روحانیت کے اعتبار سے گھٹیا درجہ کی زندگی ہے. اس اعتبار سے ان مذاہب میں اعلیٰ زندگی تجرد کی زندگی ہے. شادی بیاہ کے بندھن کو یہ مذاہب روحانی ترقی کے لیے رکاوٹ قرار دیتے ہیں. مرد ہو یا عورت دونوں کے لیے تجرد کی زندگی کو ان کے ہاں روحانیت کا اعلیٰ و ارفع مقام دیا جاتا ہے. ان مذاہب کے معاشرے میں نکاح کرنے والے دوسرے درجہ کے شہری (second rate citizen) شمار ہوتے ہیں‘ کیونکہ شادی بیاہ کے کھکیڑ میں پڑ کر ان نے اپنی حیثیت گرا دی ہے.