نبی اکرم  نے اس تصور کی کامل نفی اور تردید فرمائی ہے‘ قول سے بھی اور اپنے عمل سے بھی. حضور نے فرمایا میرا طریقہ یہ نہیں ہے. میں جو دین لے کر آیا ہوں وہ دین فطرت ہے. یہ دین انسان کے کسی بھی طبعی اور فطری تقاضے پر کوئی غیرفطری قدغن عائد نہیں کرتا‘ نہ ہی وہ یہ چاہتا ہے کہ ان تقاضوں کو بالکلیہ کچل دیا جائے. اس کے برعکس ہمارا دین ان فطری تقاضوں کو صحیح رخ پر اور صحیح راستوں پر ڈال دیتا ہے اور صحیح خطوط پر channelize کرتا ہے. ان کا جو صحیح مصرف ہے‘ اس کے لیے اس نے جائز راہیں متعین کر دی ہیں.

ان راستوں کو اختیار کرنے میں ہی خود انسان کے لیے اپنی انفرادی سطح پر بھی بھلائی ہے اور اجتماعیت کے اعتبار سے بھی اسی میں خیر ہے. لہذا ان تقاضوں کے پورا کرنے کا جو صحیح‘ جائز اور مفید طریقہ ہے اس کے لیے اس نے راستہ کھلا رکھا ہے ‘جیسے نکاح. البتہ وہ غلط راستے بند کرتا ہے ‘جیسے زنا‘ آزادانہ شہوت رانی کا طریقہ جو فرد کے لیے موجب شر اور معاشرے کے لیے موجب فساد ہوتا ہے. اسلام نے رہبانیت کی تعلیم نہیں دی بلکہ رہبانیت سے تاکیداً منع کیا ہے. چنانچہ امام ابوداؤدؒ اپنی مراسیل میں روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ ’’اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے! ‘‘یہاں جو ’’لَا‘‘استعمال کیا گیا ہے‘ وہ عربی کے قاعدے کے مطابق لائے نفی جنس کہلاتا ہے‘ جس کا مطلب ہوا کہ ہر قسم کی رہبانیت کی نفی ہو گئی. یہی بات میں دوسری طویل حدیث میں واضح طور پر آپ کے سامنے بعد میں پیش کروں گا جس کا آخری ٹکڑا یہ ہے کہ …فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ ’’جو میری سنت کو ناپسند کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں.‘‘