ایک اہم احتیاط جو ہم سب کو ملحوظ رکھنی ضروری ہے

میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر اس اہم بات کی طرف بھی توجہ دلاؤں جو عام طور پر دوسرے مذاہب کے زیراثر‘ چاہے وہ ہندوانہ تصورات ہوں یا عیسائیوں کے خیالات‘ ہماری اکثریت کے ذہنوں میں بھی بیٹہ گئی ہے اور وہ یہ کہ شادی نہ کرنا اور تجرد کی زندگی بسر کرنا واقعی کوئی اعلیٰ و ارفع نیکی ہے. چنانچہ عام طور پر بعض بزرگوں کے تذکرے میں ہماری زبانوں پر یہ الفاظ آ جاتے ہیں کہ فلاں بزرگ بڑے ہی اللہ والے اور عابد و زاہد تھے‘ انہوں نے زندگی بھر شادی ہی نہیں کی .گویا اس بزرگ کا شادی نہ کرنا ایک قابل مدح و تعریف کام قرار پایا.

اب آپ خود سوچیے کہ اس بات کی زد غیرمحتاط اندازمیں اور غیرشعوری طور پر کہاں پڑ رہی ہے. ؏ ’’ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں‘‘ اس کی زد پڑ رہی ہے نبی اکرم پر. اگر شادی نہ کرنا اور تجرد کی زندگی بسر کرنا کوئی قابل تحسین کام ہے‘ کوئی اعلیٰ و ارفع عمل ہے‘ زہد‘عبادت اور نیکی کا کوئی بلند تر مقام ہے‘ تو (نعوذ باللّٰہِ مِنْ ذٰلِک!) نبی اکرم تو اس سے محروم رہے. لہذا یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے کہ ہمارے لیے یہ احتیاط لازم ہے کہ اس قسم کی بات کو مدح و تعریف کے طور پر زبان سے کبھی نہ نکالا جائے. یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جس نے نکاح نہ کیا ہو اس کے خلاف کوئی فتویٰ ہی دے دیا جائے. ہو سکتا ہے کوئی حقیقی مجبوری ہو‘ حالات شادی کی اجازت نہ دیتے ہوں. یہ بالکل دوسری بات ہے. لہذا ایسے بزرگوں پر تنقید کی زبان کھولنا بھی صحیح نہیں ہو گا. البتہ جو احتیاط ضروری ہے وہ یہ کہ تجرد کی زندگی کی مدح ہرگز نہیں ہونی چاہیے. اس لیے کہ نبی اکرم کا فرمان یہ ہے کہ: اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ اگر اس کے برعکس روش کو آپ نے مقامِ مدح قرار دیا اور اس کو نیکی کا کوئی اعلیٰ کام سمجھا تو اس میں نبی اکرم کے لیے قدح کا پہلو نکل آئے گا اور ہمارا ایمان زائل اور اعمال حبط ہو جائیں گے.

دوسری حدیث کا آخری ٹکڑا جو میں نے آپ کو سنایا کہ: 
فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ وہ اسی: اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ کا لازمی نتیجہ ہے. نبی اکرم  کی امت میں شامل ہونے کا لازمی تقاضا اور نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ ہر امتی کو نبی اکرم  کا طریقہ اور سنت عزیز ترین اور محبوب ترین ہو. اگر وہ کسی سنت پر عمل کرنے سے معذور و قاصر ہو تو اس کو ملول و مغموم ہونا چاہیے‘ اس کو اپنی بدنصیبی سمجھنا چاہیے. لیکن اگر وہ حضور کی سنت کو ناپسند کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا تعلق حضور اکرم  سے نہیں‘ چاہے وہ ایمان کا مدعی ہو‘ زبانی طور پر اس کے عشق رسول کے بڑے بڑے دعوے ہوں‘ کتنا ہی وہ غلامِ نبی بنا پھرتا ہو. اگر اسے سنت رسول ناپسند ہے اور وہ اسے کسی درجہ میں بھی لائق التفات نہیں سمجھتا تو اس کے عشق رسول کے تمام دعوے جھوٹے اور باطل ہیں. یہی مفہوم اور مطلب ہے: فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ کا!

یہاں یہ بات بھی سمجھ لی جائے تو مناسب ہے کہ عربی میں لفظ رغبت جب 
الیٰ کے صلے (preposition) کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی کسی چیز کو پسند کرنا‘ اس کی طرف میلانِ طبع ہونا اور رغبت ہونا ہوتا ہے. رَغِبَ اِلٰی کے معنی یہی ہوتے ہیں اور لفظ‘رغبت اردو میں اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے. لیکن عربی میں جب یہ لفظ عَنْ کے صلہ کے ساتھ آئے گا یعنی ’’رَغِبَ عَنْ‘‘ تو اس کے معنی کسی چیز کو ناپسند کرنے اور کسی چیز سے نفرت اور روگردانی کے ہو جاتے ہیں. چنانچہ حدیث کے اس ٹکڑے میں رَغِبَ عَنْ استعمال ہوا ہے. لہذا اس کا مفہوم کسی چیز یا کام کو ناپسند کرنا‘ اور ا س سے نفرت و روگردانی کرنا ہو گا.