آخر میں یہ عرض کرنا میں اپنا فرض اور ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ صرف نکاح ہی سنت نہیں ہے. جیسا کہ ان احادیث سے معلوم ہوا جو میں نے سنائیں اور جن سے یہ بات ہمارے سامنے بصراحت آ گئی ہے کہ یقینا نکاح سنت رسولؐ ہے‘ لیکن قرآن حکیم نے نبی اکرم کی پوری حیات مبارکہ کو امت کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے. ازروئے فرمانِ الٰہی: لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ(الاحزاب :۲۱معلوم ہوا کہ نبی اکرم کی پوری زندگی ہمارے لیے بحیثیت مجموعی سنت کا مقام و مرتبہ رکھتی ہے. لہذا ہمیں اس پر ہرگز مطمئن نہیں ہونا چاہیے کہ نکاح کی سنت ہم نے ادا کر دی اور پھر حضور کے اس فرمانِ مبارک کی بھی تعمیل کر دی کہ: اَعْلِنُوْا ھٰذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ ’’نکاح کا اعلانِ عام کیا کرو اور اسے مسجدوں میں منعقد کرو.‘‘ یہ ترمذی کی روایت ہے .

ٹھیک ہے رسول اللہ کی ان سنتوں کی ادائیگی کی جن کو توفیق و سعادت ملی‘ وہ قابل مبارکباد ہیں. لیکن ہمیں یہ بھی غور کرنا ہو گا کہ زندگی کے بقیہ معاملات میں سنت کے تقاضے کیا ہیں‘ نبی اکرمکا اسوۂ حسنہ کیا ہے. دین کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے اور نبی اکرم کی تمام سنتوں کی ادائیگی کا فکر و اہتمام کرنے ہی میں دراصل ہماری دُنیوی و اُخروی اصلاح و فلاح اور نجات کا دارومدار ہے‘ جیسا کہ سورۃ الاحزاب کی آیت ۷۱ کے آخر میں فرمایا گیاکہ: وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کا حکم قرآن مجید میں کثرت کے ساتھ آیا ہے. موقع نہیں ورنہ میں آپ کو ان میں سے چند آیات سناتا. پس اتنا جان لیجیے کہ اللہ کی اطاعت‘ رسولؐ کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں. چنانچہ نبی اکرم نے فرمایا: مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (متفق علیہ)’’جس نے میری اطاعت کی درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی.‘‘

سورۃ آل عمران میں سنت رسولؐ کے اتباع کا مقام اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر متعین فرما دیا ہے اور اہل ایمان کے ساتھ اپنی محبت کو نبی اکرم کے اسوۂ کامل کے اتباع کے ساتھ مشروط کر دیا ہے فرمایا: 

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۱﴾ 
’’(اے نبیؐ ) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا ‘اور اللہ بخشنے والا‘ رحم کرنے والاہے‘‘!

یہ آیت اس بارے میں نص قطعی ہے کہ اللہ سے محبت کے دعوے کی اصل کسوٹی نبی اکرم کا اتباع‘ آنحضور کی پیروی اور آپ  کی سنتوں کی ادائیگی کا اہتمام ہے ‘اور اس طرزِعمل کا مقام یہ ہے کہ اللہ بھی ایسے لوگوں سے محبت کرے گا اور ان سے جو غلطیاں اور کمزوریاں بربنائے طبع بشری سرزد ہوں گی‘ ان کو معاف کر دے گا ‘کیونکہ وہ غفور بھی ہے‘ رحیم بھی.

پس معلوم ہوا کہ زندگی کے ہر گوشے اور ہر معاملے میں سنت رسول کی پیروی لازم ہے. نکاح بھی حضور کی سنت ہے ‘لیکن معاملہ یہاں ختم نہیں ہو گا. دعوت و تبلیغ دین بھی حضور کی سنت ہے. لوگوں تک قرآن کا پیغام اور اس کی دعوت پہنچانا بھی حضور کی سنت ہے. فرائض پنجگانہ کی وقت پر صحیح آداب و شرائط کے ساتھ ادائیگی بھی سنت ہے. مجاہدہ فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ بھی رسول اکرم کی سنت ہے. لوگوں پر دین کی حجت قائم کرنا بھی سنت ہے. دین حق کو عملاً قائم کرنے کی جدوجہد کرنا اور اس کام میں اپنا جان و مال لگانا‘ اپنی توانائیاں صرف کرنا بھی سنت رسول اللہ ہے. معصیت کی ہر ترغیب و تحریص سے بچنا اور پوری زندگی میں‘ چاہے وہ سیاست 
ہو‘ تجارت ہو‘ ملکی انتظام ہو‘ بین الاقوامی اور بین الانسانی تعلقات و معاملات ہوں‘ ان سب کو قرآن کی ہدایات اور نبی اکرم کے اسوۂ حسنہ کے مطابق انجام دینا بھی سنت ہے. شادی بیاہ کی تقاریب کو صرف مسجد میں نکاح کے انعقاد تک محدود رکھنا ہی سنت نہیں‘ بلکہ اس معاملے میں یہ دیکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ شادی بیاہ کے سلسلہ میں ہم کون کون سی ایسی رسومات کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں جن کا اللہ کے دین اور نبی اکرم کی سنت سے نہ صرف یہ کہ کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ سراسر غیراسلامی اور خلافِ سنت ہیں.