دل کی حقیقی محبت‘ طبیعت کی پوری آمادگی اور ایک گہرے قلبی لگاؤ کے ساتھ جب انسان کسی کی پیروی کرتا ہے تو وہ صرف اس حکم ہی کی پیروی نہیں کرتا جو وہ اپنی زبان سے واضح الفاظ میں دے رہا ہو‘ بلکہ وہ اس کی ہر ادا کی پیروی کو اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتا ہے اور اس کے چشم و ابرو کے اشاروں کا منتظر رہتا ہے. وہ یہ دیکھتا ہے کہ میرے محبوب کو کیا پسند ہے اور کیا ناپسند‘ ان کی نشست و برخاست کا طریقہ کیا ہے‘ ان کی گفتگو کا انداز کیا ہے‘ چلتے کس طرح ہیں‘ وہ لباس کون سا پہنتے ہیں‘ انہیں کھانے میں کیا چیز مرغوب ہے. ان چیزوں کے بارے میں خواہ کبھی کوئی حکم نہ دیا گیا ہو‘ لیکن جس کے دل میں کسی کی حقیقی محبت جاگزیں ہو جائے‘ جو کسی کا والہ و شیفتہ ہو جائے‘ اس کے لیے وہ احکام جو الفاظ میں دیے گئے ہوں‘ زبان سے ارشاد فرمائے گئے ہوں یا وہ کام جن کے کرنے کی ترغیب و تشویق دلائی گئی ہو اُن کا تو کہنا ہی کیا‘ وہ تو ہیں ہی واجب التعمیل‘ ایسے شخص کے لیے تو چشم و ابرو کا اشارہ بھی حکمِ قطعی کادرجہ رکھتا ہے. محبوب کی ہر ہر ادا کی نقالی اور اس کے ہر قدم کی پیروی وہ اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے. گویا : ؎

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں

اس طرزِعمل کا نام ’’اتباع‘‘ ہے جس کی بڑی تابناک مثالیں ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں نظر آتی ہیں. سیرت کی کتابوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بہت سے واقعات مرقوم ہیں جن سے ان کے جذبۂ اتباع کا پتا چلتا ہے. وہ ایک سفر میں رسول اللہ کے ساتھ تھے‘ اتفاق سے حضور کا گزر ایک خاص درخت کے نیچے سے ہوا‘ لیکن حضرت ابن عمرؓ نے ہمیشہ کے لیے لازم کر لیا کہ جب کبھی ان کا اس راستے سے گزر ہوتا تو وہ اس درخت کے نیچے سے ہو کر گزرتے. اسی طرح حجۃ الوداع کے سفر میں آنحضور نے دورانِ سفر جہاں جہاں پڑاؤ کیا‘ جہاں جہاں استراحت فرمائی اور جہاں حوائج ضروریہ سے فراغت پائی‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سفرِ حج میں انہی مقامات پر پڑاؤ استراحت اور رفعِ حاجت کا التزام کیا.

حالانکہ انہیں حضور کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا اور شریعت کے لحاظ سے آپ کے یہ اعمال واجب التعمیل بھی نہیں تھے‘ بلکہ خالص عقلیت پسند (rationalist) لوگ تو شاید اس کو جنون اور خواہ مخواہ کا fanaticism کہیں‘ لیکن یہ معاملہ عشق و محبت کا معاملہ ہے جس میں محبوب کے ہر نقشِ قدم کی پیروی دستورِ محبت شمار ہوتی ہے. اگر کوئی فنا فی حبِّ الرّسول ہو جائے تو اس کا طرزِعمل اور رویہ یہی ہونا چاہیے. اسی طرح سِیَرِ صحابہؓ میں ایک صحابیؓ کا ذکر ملتا ہے جو کسی دُوردراز علاقے سے آ کر رسول اللہ کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے تھے. انہوں نے آنحضور کو بس اسی ایک موقع پر دیکھا تھااور اتفاق سے اس وقت آپ کا گریبان کھلا تھا. آپ کو کھلے گریبان کے ساتھ دیکھ کر ان صحابیؓ نے پھر ساری عمر اپنے گریبان کے بٹن نہیں لگائے‘ اس لیے کہ انہوں نے محمدٌ رسول اللہ کو اسی حال میں دیکھا تھا. حالانکہ حضور کی طرف سے انہیں ایسا کوئی حکم تو کجا‘ کسی ادنی ٰ درجے میں اشارہ تک نہیں کیا گیا‘ اور شریعت کی رو سے یہ نہ فرض ہے نہ واجب‘ لیکن یہ محبت کے لوازم میں سے ہے کہ محبوب کے ہر نقش قدم کی پیروی اور ہر ادا کی نقالی اپنے اوپر لازم کر لی جائے. اسی طرزِعمل کا نام قرآنِ مجید کی اصطلاح میں اتباع ہے.

اتباعِ رسول کا قرآن مجید میں جو مقام ہے وہ سورۂ آلِ عمران کی آیت ۳۱ کے مطالعہ سے سامنے آتا ہے. فرمایا گیا:

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۱
’’(اے نبی !) آپ فرما دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو‘ (اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ) اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو معاف فرما دے گا‘ اور اللہ بہت معاف کرنے والا (اور) بہت رحم فرمانے والا ہے.‘‘

اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا لازمی تقاصا نبی اکرم کا اتباع ہے. اس اتباع کا ایک نتیجہ تو یہ نکلے گا کہ ہم اللہ کی محبت میں پختہ تر اور مضبوط تر ہوتے چلے جائیں گے اور دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم اللہ کے محبوب اور اس کی مغفرت و رحمت کے سزاوار قرار پائیں گے. جن کو یہ مرتبہ مل جائے کہ وہ اللہ کے محبوب قرار پائیں ان کی خوش نصیبی اور خوش بختی کا کیا کہنا!

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے پیشتر ہم اب تک کی گفتگو کے اہم نکات کا اعادہ کر لیں اور اس کے لُبِّ لباب کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں. نبی اکرم سے ہمارے تعلق کی اوّلین اور اہم ترین بنیادآپ پر ایمان لانا ہے. اس ایمان کا زبانی اقرار بھی ضروری ہے اور قلبی یقین بھی. پھر ایمان کا اوّلین تقاضا آنحضور کی توقیر و تعظیم اور آپؐ کا کماحقہ ٗ ادب و احترام ہے. آپؐ پر ایمان اور آپؐ ‘کی توقیر و تعظیم کے دو ناگزیر لوازم ہیں. ایک اطاعت ِ کلی او ر دوسرے محبت ِ قلبی جو ہر دوسری چیز کی محبت پر غالب ہو .اور جب یہ دونوں جمع ہوں گی تو اس کا نام ’’اتباع‘‘ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اصلاً یہی مطلوب ہے. چنانچہ سورٔہ آل عمران میں اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو نبی اکرم کا اتباع اپنے اوپر لازم کر لو‘ اس کے نتیجے میں اللہ تم سے محبت کرے گا‘ تم اللہ کے چہیتے بن جاؤ گے اور وہ تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا.