آیت زیرمطالعہ میں نبی اکرم سے ہمارے تعلق کی تیسری بنیاد ’’وَنَصَرُوْہُ‘‘ کے لفظ میں بیان ہوئی ہے یعنی ’’ جن لوگوں نے آپ ( )کی مدد اور حمایت کی.‘‘ اس موضوع پر آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں یہ بات طے کرنی چاہیے کہ رسول کی نصرت و حمایت اور ان کی مدد کس کام میں اور کس مقصد کے لیے مطلوب ہے.

نبوت و رسالت ایک فریضۂ منصبی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء و رُسل کو تفویض کیا جاتا ہے. یعنی بھٹکے ہوؤں کو سیدھی راہ دکھانا‘ نیند کے ماتوں کو جگانا‘ انسان کو شرک کے اندھیروں میں سے نکال کر توحید کے روشن صراطِ مستقیم پر لا کھڑا کرنا‘ اسے اعمالِ صالحہ اور مکارمِ اخلاق کا خوگر بنانا‘ انسان پر سے انسان کی خدائی کو ختم کرنا‘ معاشرے میں سے ہر قسم کے جور و استبداد اور استحصال کا خاتمہ کرنا‘ اور انسان کو یہ یقین دلانا کہ ایک دن وہ بھی آنے والا ہے کہ جس روز انسان کو اپنے مالک و آقا اور خالق کے سامنے محاسبہ کے لیے کھڑا ہونا ہو گا‘ ازروئے الفاظِ قرآنی: یَّوۡمَ یَقُوۡمُ النَّاسُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ؕ﴿۶﴾ (المطفّفین) اور یَوۡمَ لَا تَمۡلِکُ نَفۡسٌ لِّنَفۡسٍ شَیۡئًا ؕ وَ الۡاَمۡرُ یَوۡمَئِذٍ لِّلّٰہِ ﴿٪۱۹﴾ (الانفطار) یعنی جس روز لوگ ربّ العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے اور جس روز کوئی کسی کا بھلا نہ کر سکے گا‘ کوئی کسی کے کام نہ آ سکے گا اور جس دن تکوینی حاکمیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ تشریعی حکومت بھی اپنے ہاتھ میں لے لے گا. جس روز انسان کی اِس دنیا کی کمائی اور سعی و جہد کا نتیجہ اس کے سامنے ہو گا. برے اعمال اور طغیانی و سرکشی کی پاداش میں اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا‘ اور جس نے اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر جواب دہی کے خوف کے پیش نظر اپنے نفس کے بے لگام گھوڑے کو قابو میں رکھا ہو گا تو جنت اس کا ٹھکانا ہو گی. ازروئے الفاظِ قرآنی:

یَوۡمَ یَتَذَکَّرُ الۡاِنۡسَانُ مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۵﴾وَ بُرِّزَتِ الۡجَحِیۡمُ لِمَنۡ یَّرٰی ﴿۳۶﴾فَاَمَّا مَنۡ طَغٰی ﴿ۙ۳۷﴾وَ اٰثَرَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ۙ۳۸﴾فَاِنَّ الۡجَحِیۡمَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۳۹﴾وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۴۱﴾ (النّٰزعٰت)

’’جس روز انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا ‘اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی. تو جس نے سرکشی کی تھی ‘اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی ‘تو دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہو گی. اور جس نے اپنے ربّ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا‘ تو جنت اس کا ٹھکانا ہو گی!‘‘