آنحضورﷺ کے اُمتی کی اہم ترین ذمہ داری

نبی اکرم کے فرضِ منصبی کے ادراک سے نصرتِ رسول کا مفہوم خودبخود واضح ہو جاتا ہے اور یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جو شخص آنحضور پر ایمان لائے اور اس کا دل اس بات کی تصدیق کرے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں‘ اس کے لیے لازم ہے کہ اب فریضۂ رسالت و نبوت کی ادائیگی میں آپ کا رفیق و ناصر بنے. اب اسے تکبیرِ ربّ کی کٹھن مہم میں‘ اقامتِ دین اور غلبۂ دین کی جاں گسل جدوجہد میں‘ دعوت و تبلیغ کے راہِ خارزار میں‘ حق و باطل کے معرکۂ کارزار میں اور جہاد و قتال 

فی سبیل اللہ کے میدانِ جنگ و جدال میں رسول اللہ کا دست و بازو اور آپؐ کا حامی ومددگار بننا ہو گا. جہاں حضور کا پسینہ گرے وہاں وہ اپنا خون بہانے کو اپنے لیے باعثِ فخر و سعادت سمجھے‘ اسے حضور کے مشن کی تکمیل کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے اور اس بازی میں نقدِ جان کی نذر گزارنے میں فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی کا یقین ہو‘ اس کا جینا اور مرنا حضور کی دعوت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے ہو‘ اس کا مال و منال اور اس کی صلاحیتیں اور توانائیاں اس دینِ حق کے غلبے کے لیے وقف ہوں جو خالقِ کائنات اور ربّ العالمین کی طرف سے نبی اکرمکو دے کر مبعوث فرمایا گیا. اگر حضور پر ایمان لانے والوں کا نصب العین اور مقصدِ حیات 
اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام) نہ ہو تو ان کا ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کا دعویٰ غیر معتبر ہے‘ اور مغالطے اور فریبِ نفس پر مبنی ہے. چنانچہ نبی اکرم سے ہمارے تعلق کی تیسری بنیاد نصرتِ رسول ہے.

لفظِ نصرت سے کسی کو یہ خیال آ سکتا ہے کہ اللہ کے نبی اور رسول علیہ الصّلاۃ والسلام کو کسی انسان کی مدد کی کیا حاجت؟ نبیؐ ‘ کا مقام و مرتبہ تو یہ ہے کہ اللہ خود اُن کا مولا اور ناصر ہوتا ہے‘ پھر اللہ کے فرشتے نبیؐ کے پشت پناہ ہوتے ہیں‘ اور نبیؐ کو تو روح القدس کی تائید حاصل ہوتی ہے‘ لہذا نبیؐ کو اہلِ ایمان کی مدد و حمایت کی کیا ضرورت؟ پس اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس عالمِ اسباب میں دینِ حق کے غلبے کی جدوجہد انسانوں ہی کو کرنی ہے‘ جن کو زمین میں اللہ کے خلیفہ قرار دیا گیا ہے.

اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لیے انبیاء و رُسل کو دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرماتا ہے. قبولِ حق کی استعداد فطرتِ انسانی میں پہلے سے ودیعت شدہ ہوتی ہے. پھر آفاق و انفس میں اللہ کی آیات انبیاء و رُسل کی دعوت کے قبول کرنے میں مددگار ہوتی ہیں. ان کی صداقت کے ثبوت کے لیے ان پر آسمانی کتابوں کا نزول بھی ہوتا ہے جو واضح اور روشن آیات پر مشتمل ہوتی ہیں. اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو حِسّی معجزات سے بھی سرفراز فرماتا ہے‘ لیکن حق کو قبول یا ردّ کرنے کے فیصلہ کے لیے وہ انسان کو آزاد چھوڑ دیتا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی : اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ﴿۳﴾ (الدھر) یعنی ’’ہم نے تو انسان کو سیدھی راہ سجھا دی ہے‘ اب وہ حق کو تسلیم کرے یا ناشکری کرے!‘‘بہرحال اقامتِ دین‘ شہادتِ حق اور دعوت و تبلیغ کی جدوجہد انسانوں ہی کو کرنی ہوتی ہے. نبی اس دعوت و تبلیغ کا داعی ٔاوّل ہوتا ہے اور وہی سب سے پہلے دنیا کے سامنے شاہد بن کر کھڑا ہوتا ہے‘ جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں فرمایا گیا:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿۴۶
’’اے نبی( !) ہم نے آپ کو گواہی دینے والا‘ بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا‘ اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے.‘‘