اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ذرا چشمِ تصور میں غزوۂ اُحد کا نقشہ لائیے کہ محبوب ِ خدا‘ سرورِ عالم‘ محمدٌ رسول اللہ اپنے جاں نثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی معیت میں مشرکین کے سامنے سینہ سپر ہیں‘ آپ اور آپؐ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس معرکۂ کارزار میں جان کی بازی لگا رہے ہیں‘ اس کشمکش میں رحمۃٌ للعالمین زخمی ہو گئے ہیں‘ خود کی کڑیاں سر مبارک میں گھس گئی ہیں‘ رخسار مبارک بھی مجروح ہو گیا ہے‘ دندانِ مبارک بھی شہید ہوچکے ہیں‘ آپؐ ‘ کا مقدس خون راہِ حق میں بہہ رہا ہے...... اور فرض کیجیے کہ عین اُس وقت کوئی مدعی ٔ:عشقِ رسول  کہیں اپنے گھر میں بیٹھا درود کی تسبیح پڑھ رہا ہو‘ آنحضور پر سلام پڑھ رہا ہو یا آپ کی شان میں نعتیں پڑھے جا رہا ہو‘ تو یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہوگی! اس طرزِعمل کا ایمان بالرسولؐ اور محبت ِ رسول کے ساتھ کیا نسبت و تعلق؟ تو یہ طرزِعمل کہ محمدٌ رسول اللہ تو کارزارِ اُحد میں‘ جہاں پر ہر چہار طرف موت کا رقص ہو رہا ہو‘ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ اپنے خون سے ایک نئی تاریخ رقم فرما رہے ہوں اور اللہ کے جھنڈے کو سربلند کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہوں اور کوئی عاشقِ رسولؐ :کہیں کسی گوشے میں بیٹھا درود و سلام پڑھ رہا ہو‘ جس قدر مضحکہ خیز اُس وقت ہوتا اسی قدر مضحکہ خیز آج بھی ہے. اس لیے کہ آنحضور کا مشن مُردہ نہیں ہوا‘ زندہ و تابندہ ہے اور تاقیامت زندہ رہے گا. 

محمدٌ رسول اللہ کی رسالت تاقیامِ قیامت ہے اور آپ کے بعد یہ فریضۂ رسالت اُمتِ مسلمہ کو بحیثیت اُمت ادا کرنا ہے. بنی نوع انسان آج بھی ہدایتِ ربانی کی محتاج ہے. دنیا آج بھی طاغوتی شکنجے میں گرفتار ہے. آج بھی ہر اُس شخص پر جو خود کو مسلمان سمجھتا ہے ‘یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان تک حق کا پیغام پہنچائے. آنحضور کی بعثت صرف اہلِ عرب کے لیے نہ تھی‘ بلکہ تمام بنی نوعِ انسان کے لیے تھی. آنحضور کی بعثت ایک مخصوص زمانے اور وقت کے لیے نہ تھی بلکہ قیامِ قیامت تک کے لیے تھی. توحید کی دعوت دینا‘ شرک کا ابطال کرنا اور اللہ کے دین کو عملاً غالب اور قائم کرنا محمدٌ رسول اللہ کا مقصدِ بعثت تھا. ازروئے الفاظِ قرآنی: ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ… (التوبۃ:۳۳‘ الفتح:۲۸‘ الصف:۹)حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کے قول کے مطابق اس آیت کی کامل شان کا ظہور ابھی باقی ہے. اس کا ظہور اُس وقت تک نہ ہو گا جب تک اس پورے کرۂ ارضی پر اُسی طرح اللہ کے دین کا جھنڈا نہیں لہراتا اور ادیانِ باطلہ کے جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے جس طرح محمدٌ رسول اللہ نے تیئیس سال کی محنت شاقہ کے نتیجے میں جزیرہ نمائے عرب میں لہرایا تھا اور وہاں پہلے سے قائم طاغوتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا. چنانچہ جب تک یہ کام انجام تک نہ پہنچے‘ نبی اکرم کا مقصدِ رسالت و بعثت ابھی شرمندۂ تکمیل ہے اور اس کی تکمیل کی ذمہ داری اُمتِ مسلمہ پر ہے. بقول علامہ اقبال : ؎

وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!

پس اب اس مدعی ٔ ایمان‘ اس عاشقِ رسولؐ اور اس محب ِرسولؐ کو خوب اچھی طرح اپنے دل میں جھانک کر اپنا جائزہ لینا چاہیے جسے حضور کے مقصدِ بعثت اور آپؐ کے مشن سے سرے سے کوئی دلچسپی نہ ہو اور اسے خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس کے ان دعاوی میں کتنی صداقت ہے. آج عملاً یہ صورت حال رونما ہو چکی ہے کہ بقولِ حالی : ؎ 
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے