یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ نبی اکرم کے فرمودات کی رُو سے قرآن مجید ہی وہ ’’حبل اللہ‘‘ ہے جس کے ساتھ چمٹ جانے اور وابستہ ہو جانے کا سورۂ آلِ عمران میں حکم آیا ہے. اس سلسلے کا پہلا حکم سورۃ الحج میں وارد ہوا ہے جس کی آخری آیت میں فرمایا گیا: وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ’’اللہ کے ساتھ چمٹ جاؤ ‘‘. اس کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ. سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اللہ سے کیسے چمٹیں‘ اس کے دامن سے کیسے وابستہ ہوں؟ سورۂ آل عمران میں اس کو مزید کھولا گیا : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ ’’اوراللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامو‘‘. اللہ کی رسّی کے ساتھ چمٹ جاؤ. اس وضاحت کے باوجود یہ سوال باقی رہا کہ پھر حبل اللہ سے کیا مراد ہے؟ کسے تھامیں؟ کس سے جُڑیں؟

اس کی شرح و توضیح نبی اکرم نے فرما دی اور وحی غیرمتلو کے ذریعے اُمت کو مطلع فرما دیا کہ اللہ کی یہ کتاب قرآن مجید ہی درحقیقت اللہ کی وہ مضبوط رسّی ہے جس سے اعتصام کا‘ جس کے ساتھ چمٹ جانے اور جڑ جانے کا اور جس کو تھام لینے کا حکم سورۂ آل عمران میں دیا گیا ہے. چنانچہ ایک نہایت جامع حدیث میں جس کے راوی حضرت علی ؓ ہیں اور جس میں قرآن مجید کی عظمت و شوکت‘ اس کے مرتبہ و مقام اور اس کی اہمیت کا بیان مفصل انداز میں ہوا ہے‘ نبی اکرم کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ یعنی ’’یہی قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے.‘‘ اسی طویل حدیث میں قرآنِ حکیم کی شان میں آنحضور کے یہ الفاظ بھی لائق توجہ ہیں کہ ’’ قرآن مجید وہ کتاب ہے جس سے علماء کبھی سیری محسوس نہیں کریں گے‘ نہ کثرت اور تکرارِ تلاوت سے اس کتاب پر کبھی باسی پن طاری ہو گا اور نہ ہی اس کے عجائبات کبھی ختم ہوں گے ‘‘. یعنی اس کے علوم و معارف کا خزانہ کبھی ختم نہ ہو گا‘ اور اس کان سے حکمت و معارف کے نئے نئے موتی اور جواہرات برآمد ہوتے رہیں گے. (یہ حدیث سنن ترمذی اور سنن دارمی میں روایت ہوئی ہے.)