بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست
کہ از یٰسینِ اُو آساں بمیری
سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کا ایک استغاثہ نقل فرمایا ہے: وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾ ’’اور کہا رسولؐ نے کہ اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا تھا (نظرانداز کر دیا تھا)‘‘. اگرچہ سیاق و سباق کے لحاظ سے اس آیت میں اصلاً تذکرہ ان کفار کا ہے جن کے نزدیک قرآن مجید سرے سے کوئی قابلِ التفات چیز تھی ہی نہیں اور جو قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام اور وحیِ ٔربانی تسلیم ہی نہیں کرتے تھے‘ تاہم قرآن کے وہ ماننے والے بھی اس کے ذیل میں آتے ہیں جو عملاً قرآن کے ساتھ عدمِ توجہ و التفات کی روش اختیار کریں ‘یعنی جو نہ اس کی تلاوت کو اپنے معمولات میں شامل کرتے ہوں‘ نہ اسے اپنے غور و فکر کا موضوع بناتے ہوں اور نہ ہی اسے اپنی زندگی کا لائحۂ عمل بنانے پر آمادہ ہوں. یہاں آیت زیرنظروَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ میں ’’اتباع‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں پیروی کرنا. ہر حکم‘ ہر ہدایت‘ ہر امر اور ہر نہی کی تعمیل کرنا. ہمارا قرآن حکیم کے ساتھ اگر اس نوع کا تعلق ہو گا تو ہم نہ صرف یہ کہ گمراہی سے محفوظ رہ سکیں گے‘ بلکہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہماری نسبت بھی صحیح بنیادوں پر استوار رہ سکے گی!… یہاں یہ بات اب بالکل واضح ہو گئی کہ کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنا‘ اس کو اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں ہادی‘ حَکم اور راہنما قرار دینا‘ اس کی تعلیمات پر عمل کرنا‘ اس کی صبح و شام تلاوت کرنا‘ اس میں تدبر اور غور و فکر کرنا‘ اس کو حرزِ جان بنانا‘ اس کا اتباع کرنا‘ یہ ہے نبی اکرمﷺ سے ہمارے صحیح تعلق کی چوتھی بنیاد. گویا اگر ہم اس کتاب سے جڑے تو محمدﷺ سے جڑ گئے اور اس سے کٹے تو محمدﷺ سے کٹ گئے.