اصلاح ِحال کا واحد طریق

قرآن مجید کے ساتھ ہمارا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے‘ اس ضمن میں یہ حدیث شریف نہایت جامع ہے‘ جو حضرت عبیدہ ملیکیؓ سے مروی ہے اور جس کے مطابق آنحضور نے فرمایا: 

یَااَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَاءِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَاَفْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (۱)
’’ اے قرآن والو! قرآن کو بس اپنا تکیہ ہی نہ بنا لو‘ بلکہ دن اور رات کے اوقات میں اس کی تلاوت کیا کرو جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے اور اس کو (چہار دانگِ عالم میں) پھیلاؤ‘ اور اس کو خوش الحانی سے حظ لیتے ہوئے پڑھا کرو‘ اور اس میں تدبر اور غور و فکر کیا کرو‘تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘.

اس حدیث مبارک میں مسلمانوں کو حضور نے اہلِ قرآن کا خطاب دیا ہے: ’’یَااَھْلَ الْقُرْآنِ‘‘ .یہ خطاب ہم وزن ہے اُس خطاب کے جو قرآن یہود و نصاریٰ کو دیتا ہے ’’یَااَھْلَ الْکِتَابِ ‘‘ .الکتاب کا آخری‘ مکمل اور جامع ایڈیشن ’’القرآن‘‘ ہے جس کی حامل اُمتِ مسلمہ ہے‘ اسی مناسبت سے آنحضور نے اُمت کو ’’یَااَھْلَ الْقُرْآنِ‘‘ کے الفاظ سے مخاطب فرمایا. سبحان اللہ‘ کتنا پیارا خطاب ہے جو اِس اُمت کو (۱) رواہ البیھقی فی شعب الایمان ملا. میں اس سے قبل بھی کسی موقع پر یہ عرض کر چکا ہوں کہ ہماری بہت سی غلطیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے غاصبانہ طور پر اپنے لیے ’’اہلِ قرآن‘‘ کا عنوان اختیار کیا‘ ہم نے بھی ان کو اسی نام سے پکارنا شروع کر دیا‘ حالانکہ یہ نام انہوں نے حدیث کے بارے میں اپنے گمراہ کن نظریات پر پردہ ڈالنے کے لیے اختیار کیا تھا. ان کا اصل نام ہونا چاہیے تھا ’’منکرینِ سنت‘‘ یا ’’منکرینِ حدیث‘‘ .ہماری یہ بڑی نادانی ہے کہ ہم نے ان کے اس قبضۂ غاصبانہ کو تسلیم کر لیا اور ان کو یہ نام الاٹ کر دیا جس کے وہ ہرگز اہل نہیں ہیں! یہ خطاب تو آنحضور نے اُپنی امت کو دیا تھا‘ منکرینِ حدیث کو نہیں!

اس حدیث کا ایک ایک لفظ لائقِ توجہ ہے. کس قدر جامع ہیں نبی اکرم کے یہ الفاظ جن میں مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق کا کمال اختصار کے ساتھ احاطہ کر لیا گیا ہے. یہاں اس حدیث کی تشریح تو پیش نظر نہیں ہے‘ محض ایک نکتے کی جانب اشارہ کر کے ہم آگے بڑھیں گے. ’’یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ‘‘ کا سادہ ساترجمہ تو یہ ہو گا کہ اے اہلِ قرآن! اس قرآن کو تکیہ نہ بنا لینا. لیکن یہاں تکیہ کا لفظ نہایت معنی خیز ہے. تکیہ چونکہ کمر کے پیچھے لگایا جاتا ہے‘ لہذا ایک مطلب تو یہ ہوا کہ اس قرآن کو پسِ پشت نہ ڈال دینا‘ اسے نظرانداز نہ کر دینا. پھر یہ کہ تکیہ چونکہ سہارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو اس اعتبار سے مفہوم یہ ہو گا کہ اس قرآن کو محض ایک سہارا نہ بنا لینا کہ بس اپنے ذہن میں اس کتاب کی تقدیس کا ایک گوشہ کھول کر اور اسے نہایت قیمتی جزدان میں اونچے طاق پر رکھ کر مطمئن ہو جاؤ کہ اس کی موجودگی باعثِ برکت ہے. اس کتابِ مبین سے ہمارا عملی تعلق بس اتنا رہ گیا ہے کہ کہیں قسم کھانے کی ضرورت پڑتی ہے‘ چاہے وہ جھوٹی قسم ہی کیوں نہ ہو‘ تواس کے لیے اس کتاب کو تختۂ مشق بنایا جاتاہے‘ دم توڑتے شخص کو سورۂ یٰسین پڑھ کر سنا دی جاتی ہے‘ یا بیٹی کو قرآن کا ایک نسخہ جہیز میں دے کر ایک رسم پوری کردی جاتی ہے‘ اللہ اللہ اور خیر سلا! قرآن حکیم کے ساتھ ہمارا عملی رویہ تو وہ ہونا چاہیے جو اس حدیث کی رو سے سامنے آتا ہے. واقعہ یہ ہے کہ اس حدیث کے ایک ایک لفظ میں ہمارے لیے فکری و عملی راہنمائی کا وافر سامان موجود ہے.

اللہ کے اس نور کا جو محمد کے توسط سے ہم کو ملا‘ جب ہم نے اتباع چھوڑ دیا تو اس دنیا میں اس کا یہ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہم یہاں ذلت و رسوائی کا ایک عبرت ناک مرقع بنے ہوئے ہیں. رہا عذابِ اُخروی‘ تو اس کے سزاوار بننے میں بھی ہم نے کوئی کسر اٹھا نہیں چھوڑی. اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہماری دستگیری فرمائے اور وہ ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائے تو دوسری بات ہے. اللہ اکبر! کیسا صادق آتا ہے ہمارے حال پر آنحضور کا یہ فرمان جسے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ: اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ (۱یعنی ’’اللہ تعالیٰ یقینا اس کتابِ عزیز کی وجہ سے کچھ قوموں کوعزت و سربلندی عطا فرمائے گا اور دوسروں کو (اس کتاب کو چھوڑنے کے باعث) ذلت و نکبت سے دوچار کرے گا.‘‘ گویا دنیا میں بحیثیتِ قوم ہماری تقدیر اسی کتاب کے ساتھ وابستہ ہے. اس حدیث کی بہت عمدہ تعبیر کی ہے علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں کہ : ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ’’ہم‘‘ خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

آیت زیرنظر کے اس ٹکڑے وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ پر غور کرنے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اس میں ایمان بالرسالت‘ توقیر و تعظیمِ رسولؐ اور نصرتِ رسولؐ یعنی نبی اکرم سے ہمارے تعلق کی ان تینوں بنیادوں کا بھی پوری طرح احاطہ کر لیا گیا ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہیں اور اسی طرزِعمل اور اسی روش کو اللہ تعالیٰ نے فوز و فلاح کا ضامن قرار دیا ہے. چنانچہ اس آیت کا اختتام ان الفاظ پر ہوتاہے: اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾٪ آیت کے اس حصے سے صاف طور پر مترشح ہے کہ فلاح و صلاح اور نجات نبی اکرم سے تعلق کی ان چار بنیادوں کی درستگی پر موقوف ہے. (۱) صحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا‘ باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ… اپنی گفتگو کو ختم کرنے سے قبل ایک بات مزید عرض کرنا چاہوں گا. میرے نزدیک مسلمانوں کی زبوں حالی اور اس کا زوال و انحطاط دراصل قرآن مجید سے دوری کا نتیجہ ہے. یہی بات بلند پایہ علمائے اسلام اپنی تقریروں اور تحریروں میں کہتے چلے آئے ہیں‘ جن میں سے ایک ایسی بزرگ ہستی کا حوالہ میں اس وقت پیش کروں گا جو مجھ سے لاکھوں درجہ بلند و برتر شخصیت ہیں. وہ ماضی بعید کی نہیں‘ ماضی قریب کی ایک مسلّمہ محترم شخصیت ہیں اور وہ ہیں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ علیہ. پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) کے دوران حکومتِ برطانیہ نے شیخ الہندؒ کو مالٹا میں اسیر کر دیا تھا. مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے اپنی تألیف ’’وحدتِ اُمت‘‘ میں لکھا ہے کہ۱۹۲۰ء میں شیخ الہندؒ جب اسارتِ مالٹا سے واپس آئے تو ایک دن دارالعلوم دیوبند کے اکابر اور علماء کو جمع کیا اور فرمایا:

’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دُنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں‘ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے. ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا‘ دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی. اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے. بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی قائم کیے جائیں‘ بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے انہیں آمادہ کیا جائے‘ اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے.‘‘

میں شیخ الہندؒ کی تشخیص کو صد فیصد صحیح سمجھتے ہوئے اور موجودہ تمام حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو لوگ حقیقی معنوں میں اسلام کی روشنی میں پاکستان میں اصلاحِ احوال کے آرزومند ہیں ان کی تمام تر توجہ اللہ تعالیٰ کی اس کتابِ عزیز کی خدمت کی طرف مرکوز ہو جانی چاہیے. قرآن مجید کو پڑھنے اور پڑھانے‘ سمجھنے اور سمجھانے اور اس کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنانے کی دعوت کو کامیاب کرنے کے لیےاپنی بہترین عملی جدوجہد اور قوتوں کو صرف کرنا اگر ہمار ا نصب العین بن گیا اور ہمارے معاشرے میں یہ بات ایک تحریک کی صورت میں چل نکلی تو جملہ مسائل حل ہوتے چلے جائیں گے. ایمان و یقین اسی کتاب سے حاصل ہو گا‘ عقائد اسی سے درست ہوں گے‘ جاہلیتِ قدیمہ و جدیدہ کا ابطال اسی فرقانِ حمید سے ہو گا. شرک و بدعت کے اندھیرے اسی نورِ ہدایت کی ضیاپاشی سے دور ہوں گے‘ عمل و اخلاق کی اصلاح اور ان میں تبدیلی اسی کی تعلیمات سے ہو گی. معاملات اگر سنوریں گے تو اسی کتاب مبین کی رشد و ہدایت سے سنوریں گے. اور اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ہمارے ملک میں اسلامی نظام بھی اسی حبل ُ اللہ کے اعتصام اور اس سے تمسک کے نتیجہ میں قائم ہو گا. اس کی بنیاد پر جو دعوت اٹھے گی اور نبی اکرم کے طریق پر جو انقلابی کام ہو گا اسی کے نتیجے میں یہاں اسلامی نظام کا قیام ممکن ہو سکے گا. کسی اور ذریعے سے یہ تبدیلی ممکن نہیں ہے!

تعلّم و تعلیم قرآن کی عظمت و اہمیت اور قرآن حکیم کے ’’حبل اللہ‘‘ ہونے کے بارے میں درج ذیل تین احادیث نہایت اہم اور جامع ہیں. انہیں اپنے ذہن نشین کر لیجیے. پہلی حدیث کے راوی ہیں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ . صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہے کہ آنحضور نے فرمایا: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ (۱یعنی ’’تم میں سے بہترین وہ ہیں جو قرآن کا علم حاصل کرتے ہیں اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں.‘‘
دوسری حدیث طبرانی کبیر میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: 

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : اَلَیْسَ تَشْھَدُوْنَ اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَاَنَّ الْقُرْآنَ جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ؟ قُلْنَا: بَلٰی‘ قَالَ: فَاَبْشِرُوْا فَاِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ طَرَفُہٗ بِیَدِ اللّٰہِ وَطَرَفُہٗ بِاَیْدِیْکُمْ‘ فَتَمَسَّکُوْا بِہٖ فَاِنَّکُمْ لَنْ تَھْلِکُوْا وَلَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اَبَدًا (۱) صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ. وسنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب ما جاء فی تعلیم القرآن. نبی اکرم نے فرمایا: ’’کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ تنہا ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور یہ کہ قرآن اللہ کے پاس سے آیا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: یقینا! تب آپؐ نے فرمایا: ’’پس تم خوشیاں مناؤ‘ اس لیے کہ اس قرآن کا ایک سرا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور ایک (دوسرا) سرا تمہارے ہاتھ میں. پس اسے مضبوطی سے تھامے رکھو! (اگر تم نے ایسا کیا) تو تم اس کے بعد نہ کبھی ہلاک ہو گے اور نہ کبھی گمراہ.‘‘

تیسری حدیث کے راوی حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ ہیں. وہ فرماتے ہیں:

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : کِتَابُ اللّٰہِ ‘ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ (۱)
رسول اللہ‘ نے فرمایا : ’’اللہ کی کتاب ہی اللہ کی وہ رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی ہے.‘‘