تحریک میں تسلسل اور دوام ایک لائق شکر بات

سب سے پہلا شکر ہم پر اس اعتبار سے واجب ہے کہ ہمارے اس کام میں‘ جس کے یہ دو نمایاں تنظیمی مظہر ہیں‘ یعنی انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی ‘ الحمد للہ کہ گزشتہ بیس برس سے تسلسل بھی ہے اور تواتر بھی. گو ہماری رفتار کوئی بہت زیادہ تیز نہیں رہی‘ لیکن اس میں جو تسلسل اور تواتر کا پہلو ہے وہ میرے نزدیک بہت اہمیت کا حامل ہے. طوفان کی طرح اٹھنے والی تحریکیں بسا اوقات بہت جلد جھاگ کی مانندبیٹہ بھی جاتی ہیں‘ لیکن جس کام میں تسلسل اور دوام ہو اور جو پیہم کیا جائے اصل میں وہی پائیدار بھی ہوتا ہے اور اسی کے نتیجے میں کوئی حقیقتاً مؤثر اور وقیع کام سرانجام پا سکتا ہے. میں نے حالیہ 

سالانہ اجتماع کے دوران بھی اس ضمن میں دو الفاظ ایک انگریزی محاورے کے حوالے سے استعمال کیے تھے : 
slow (i 
steady (ii

ہمارے اب تک کے کام پر یہ دونوں الفاظ منطبق ہوتے ہیں. اس میں یقینا ہمارے لیے اطمینان بلکہ بشارت کا بہت کچھ سامان موجود ہے اور ہمیں اس پر تہہ دل سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے. 

اسی طرح شکر کے لائق ایک اور بات یہ ہے کہ ہماری اس اجتماعیت میں اس بیس سال کے عرصے میں کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوا‘ کوئی بڑا اختلاف رونما نہیں ہوا. انجمنوں اور اداروں کی زندگیوں میں بڑے بڑے طوفان آتے ہیں اور ایسے بڑے اختلافات اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں کہ بعض اوقات ادارے کی بساط تک لپیٹنے کی نوبت آ جاتی ہے. اس لیے کہ عام طو رپر انجمنوں کا نظام بڑا ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے‘ اس میں بالعموم کچھ سرکردہ شخصیتوں کا ٹکراؤ ہو جایاکرتا ہے اور باہم کھینچ تان عام طو رپر جاری رہتی ہے جو نہایت مضر اثرات کی حامل ہوتی ہے. الحمد للہ‘ ثم الحمد للہ ہمارا یہ ادارہ اس نوع کی خرابیوں سے بالکل محفوظ رہا ہے. یہ قرآن اکیڈمی انجمن کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز رہی ہے اور یہاں آس پاس کے رہنے والے بخوبی واقف ہیں کہ ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ الحمد للہ یہاں کبھی پیش نہیں آیا. گزشتہ بیس سال کے دوران مرکزی انجمن کے کسی بھی فنکشن میں‘ خواہ وہ عمومی اجلاس ہو اور خواہ مجلس منتظمہ کی خصوصی میٹنگ ہو‘ کبھی کوئی تلخی نہیں ہوئی‘ کبھی کسی توتکار کی نوبت نہیں آئی. یہ اللہ کا بہت بڑا فضل و کرم ہے شکر کے بارے میں میں نے بارہااس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ جب تک انسان کو پورا شعور حاصل نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنابڑا فضل اور انعام ہوا ہے‘ اس وقت تک اس کے متناسب اور proportionate شکر ادا نہیں کیا جا سکتا. یہ ادراک اور شعور کہ مجھ پر اللہ کا کتنا بڑا احسان اور کتنا عظیم فضل ہوا ہے ‘ بڑی اہمیت کا حامل ہے. جتنا یہ شعوراور احساس گہرا ہو گاجذبہ تشکر بھی اتنی ہی گہرائی سے برآمد ہوگا اور اسی قدر قوت کے ساتھ یہ جذبہ تشکر ایک چشمہ کی مانند قلب کی گہرائیوں سے اُبلے گا. 

کم و بیش اسی طرح کا معاملہ الحمد للہ تنظیم اسلامی کا بھی ہے کہ کوئی بڑا اختلاف اور انتشار وہاں بھی رونما نہیں ہوا. ظاہر بات ہے کہ انسانوں کی جماعت میں کچھ نہ کچھ لوگوں کا اختلاف کرنا یا اِکا دُکا لوگوں کا جماعت سے علیحدہ ہو جانا بالکل فطری امر ہے‘ کوئی بھی جماعت اس سے خالی نہیں رہی‘ یہاں تک کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعتوں میں بھی ایسے لوگ نکل آتے تھے کہ جو ساتھ چھوڑ جاتے تھے‘ تو تنظیم اسلامی کے اندر بھی اس طرح کے چند واقعات کا ہونا موجب حیرت یا باعث تشویش نہیں ہونا چاہیے. آنحضور کی حیاتِ طیبہ میں کئی مواقع ایسے آئے کہ بعض لوگ متزلزل ہوئے یا ساتھ چھوڑ گئے. سیرت کی کتابوں میں یہ بات مذکور ہے کہ واقعہ معراج کے بعد ایسے متعدد مسلمان جو نئے نئے ایمان لائے تھے اور ابھی ایمان میں پختہ نہیں ہوئے تھے ‘ متزلزل ہوگئے تھے. اسی طرح حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنہاکے شوہر جو صاحب ایمان تھے اور اپنی اہلیہ سمیت حبشہ کی جانب ہجرت کر گئے تھے‘ وہاں جا کر مرتد ہوگئے. شوہر کے مرتد ہو جانے کے بعد حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہاچونکہ اس کے نکاح میں نہیں رہیں تو پھر حضور نے ان کی دلجوئی کے لیے مدینہ منورہ سے نکاح کا پیغام بھجوایا‘ اس لیے کہ وہ قریش کے ایک بہت بڑے سردار ابوسفیان ( رضی اللہ عنہ) کی صاحبزادی تھیں اور اس حوالے سے ان کا جومقام و مرتبہ تھا اس کے پیش نظر حضور نے مناسب سمجھا کہ ان سے خود نکاح کریں. آپ کے علم میں ہو گا کہ حضور کی طرف سے مہر بھی حضرت نجاشی رحمہ اللہ علیہ نے ادا کیاتھا. اس لیے کہ بوقت ِنکاح حضور مدینہ میں تھے اور حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہاابھی حبشہ ہی میں تھیں‘ وہ پھر بعد میں مدینہ تشریف لائی تھیں. 

بہرحال میں نے یہ چند مثالیں دی ہیں کہ تحریکوں اور جماعتوں میں کچھ نہ کچھ لوگوں کی تو اس طرح آمد و رفت رہتی ہے. نبی اکرم کے دور میں یہ بہت کم تھی اور آج کے دور میں غلبہ و اقامت ِدین کے لیے جو بھی تحریک اٹھے گی اس میں یقیناایسے واقعات نسبتاً زیادہ ہوں گے‘ لیکن الحمد للہ تنظیم اسلامی کو قائم ہوئے سترہ برس ہو چکے ہیں‘ اس میں کوئی بڑا ہنگامہ یا کوئی بڑا اختلاف رونما نہیں ہوا‘ کسی بڑی تعداد میں لوگوں کی اس سے علیحدگی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا‘ اور یہ چیز یقینا ایسی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کےاس 


احسان کا ادراک اور شعور کرتے ہوئے کہ ہمارے اس کام کی رفتار گو کم رہی لیکن اس میں دوام‘ تسلسل اور تواتر رہا ہے‘ اپنے قلب کی گہرائیوں سے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے. اس لیے کہ اگر یہ قافلہ اسی دوام اور تسلسل سے چلتا رہے تو میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ پائیدار نتائج کے برآمد ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے.