دوسری بات جس پر ہمیں صمیم قلب کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور خاص طورپر میں اپنی ذات کے حوالے سے بار بار اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں‘ یہ ہے کہ جیسے ہماری تنظیم میں تسلسل اور تواتر موجود ہے اسی طرح یہاں توازن اور اعتدال کا وصف بھی الحمد للہ پایا جاتا ہے. یہ وصف اپنی جگہ نہایت ضروری بھی ہے اور اہم بھی. اکثر تحریکوں میں یہ ہوتا ہے کہ ایک مرحلے کے بعد جب وہ تحریک دوسرے مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو پہلے مرحلے کی اہمیت نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے.

جیسے ایک انسان جب سیڑھی کے ذریعے چھت پر چڑھ جائے تو پھر سیڑھی کی اہمیت اس کی نگاہ میں نہیں رہتی‘ اس لیے کہ جو مقصد اس سے حاصل کرناتھا وہ حاصل کر لیا. الحمد للہ کہ ذاتی طور پر میں اس معاملے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں. میں نے دعوت رجوع الی القرآن کا جو کام شروع کیا تھا اس میں ابتدائی چھ سات برس میں نے تن تنہا کام کیا. اُس وقت انجمن خدام القرآن کا وجود نہیں تھا. اس کے بعد ۱۹۷۲ء میں یہ انجمن قائم ہوئی. پھر ۱۹۷۵ء میں تنظیم اسلامی کا قیام عمل میں آیا. تو درحقیقت میرے پیش نظر یہ دو کام ہیں جو قریباً متوازی اور متساوی ہیں. میں نہیں کہہ سکتا کہ میری زندگی میں ان میں سے کس کو زیادہ اہمیت حاصل ہے‘ بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہو گا کہ ان کا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ایک گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں. ان میں سے پہلے کام کا عنوان ’’دعوت رجوع الی القرآن‘‘ ہے جس کے لیے مرکزی انجمن خدام القرآن وجود میں آئی اور دوسرا کام جس کے لیے تنظیم اسلامی تشکیل دی گئی ہے ‘ غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد سے عبارت ہے. رفقاء و احباب جانتے ہیں کہ اب بھی میری توانائیوں کا کافی بڑا حصہ پہلے کام یعنی 

دعوت رجوع الی القرآن میں کھپ رہا ہے. ایسا نہیں ہوا کہ میں نے سمجھا ہو کہ اس کام کا تعلق تو میرے جہادِ زندگانی کے ابتدائی مرحلے سے تھا اور اب مجھے تحریک‘ تنظیم اور انقلاب ہی کی طرف پوری طرح متوجہ ہوجانا چاہیے. الحمد للہ کہ اس معاملے میں میرا طرزِ عمل توازن واعتدال پر مبنی رہا ہے.