’’اتمامِ نور‘‘ اور ’’غلبہ ٔدین حق‘‘ : گاڑی کے دو پہیے

اس سال ملتان میں دورۂ ترجمہ قرآن کے دوران پہلی مرتبہ میرا ذہن اس حقیقت کی جانب منتقل ہوا کہ قرآن مجید میں دو مقامات پر گاڑی کے ان دو پہیوں کا ذکر ساتھ ساتھ آیا ہے. یہ محاورہ کہ گاڑی دو پہیوں پر چلتی ہے اس اعتبار سے بڑا معنی خیز ہے کہ اگر ایک پہیہ جام ہو جائے تو گاڑی گھومنے لگے گی‘ آگے نہیں بڑھے گی. اس کے دونوں پہیے چل رہے ہوں تو پھر گاڑی کے لیے ممکن ہو گا کہ وہ ایک خط ِمستقیم میں آگے کی طرف پیش قدمی کر سکے. گاڑی کے جن دو پہیوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان کا تذکرہ سورۃ التوبہ میں بھی اور سورۃ الصف میں بھی بالکل ساتھ ساتھ آیا ہے. سورۃ الصف کی یہ آیات تو اکثر حضرات کو یاد ہوں گی اور ان کا مفہوم بھی ذہن میں ہو گا: 

یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸﴾ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾ 

اور سورۃ التوبہ کے الفاظ یہ ہیں: 
یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۳۲﴾ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳۳﴾ 

ذرا غور کیجیے‘ قرآن حکیم کے یہ دونوں مقامات اسلوب کے اعتبار سے کتنے مشابہ ہیں‘ بلکہ الفاظ بھی کم و بیش بالکل ایک سے ہیں‘ صرف پہلی آیت کے بعض الفاظ ایک دوسرے سے کچھ مختلف نظر آتے ہیں ‘ ورنہ آیت کا مفہوم ایک ہی ہے. یہاں دو مقاصدکا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ یہ دونوں کام اب پورے ہو کر رہیں گے‘ چاہے مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہواور چاہے کافروں کو کتنا ہی ناپسند ہو!! ایک مقصد ہے اتمامِ نور‘ جس کے لیے سورۃ الصف میں الفاظ آئے : ’’وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ‘‘ کہ اللہ اپنے نور کا اتمام فرما کر رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناپسند ہو. اور دوسرا کام یا دوسرا مقصد اگلی آیت میں بیان ہوا‘ جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اس لیے بھیجا ہے کہ وہ دین حق کو غالب کرے خواہ یہ چیز مشرکوں کو کتنی ہی ناپسند ہو! مؤخر الذکر بات سورۃ التوبہ میں بھی بعینہٖ انہی الفاظ میں آئی ہے‘ ایک شوشے کا بھی فرق نہیں ہے: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳۳﴾ پہلی آیت میں تھوڑا سا لفظی فرق موجود ہے . سورۃ الصف میں فرمایا: 

’’یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا‘‘ جبکہ سورۃ التوبہ میں ’’یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا‘‘ کے الفاظ آئے . یعنی ایک حرفِ ناصب کی جگہ دوسرا حرفِ ناصب آ گیا.اسی طرح سورۃ الصف میں ’’وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ‘‘ کے الفاظ ہیں جبکہ سورۃ التوبہ میں اسی مفہوم کو ’’وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ‘‘ کے الفاظ میں بیان فرمایا گیا‘ جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ بہرطور اپنے نور کا اتمام فرما کر رہے گا‘ خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناپسندہو! 

گاڑی کے انہی دونوں پہیوں کو سورۃ المائدۃ کی اس عظیم آیت میں بھی جمع کیا گیاجو بڑی مشہور ہے اور جس کے بارے میں یہود کے بعض علماء نے کہا تھا کہ اے مسلمانو‘ یہ آیت جو تمہیں عطا ہوئی ہے اگر ہمیں عطا ہوتی تو ہم اس کے یومِ نزول کو اپنا سالانہ جشن اور سالانہ عید قرار دیتے. اس آیت کے الفاظ پر توجہ مرکوز کیجیے. فرمایا: 
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ (آیت۳وہی دونوں چیزیں یہاں جمع کر دی گئیں: ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْنَـکُمْ‘‘ کہ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے ’’دین‘‘ کو کامل کر دیا‘ یعنی وہ دین حق جس کا غلبہ و اظہار بعثت محمدیؐ کا اصل مقصد ہے‘ آج مکمل ہو گیا ’’وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ‘‘ اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرما دیا. اس سے مراد نورِ ہدایت کا اتمام اور تکمیل ہے جس کا ذکر سورۃ الصف میں ’’وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ‘‘ کے الفاظ میں وارد ہوا تھا.

معلوم ہوا کہ اتمامِ نور یعنی اتمامِ ہدایت ہی درحقیقت اتمامِ نعمت ہے. گویا اصل نعمت ہے ہی نعمت ِہدایت! دنیا کی کوئی شے نعمت نہیں ہے جب تک نعمت ہدایت اس کے ساتھ شامل نہ ہو. نعمت ِہدایت کے بغیر دولت‘ صحت‘ اولاد‘ اقتدار غرضیکہ کوئی شے نعمت نہیں ہے‘ بلکہ یہ سب عذاب کا موجب بن جانے والی چیزیں ہیں‘ ان کا غلط استعمال انسان کو ہلاکت و بربادی سے دوچار کر دے گا. ہاں اگر ہدایت موجود ہو تو پھر اولاد بھی نعمت ہے‘ پھر دولت بھی ایک عظیم نعمت سے کم نہیں کہ انسان اسے زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا. اسی طرح ہدایت اگر موجود ہو تو صحت بھی نعمت ہے کہ انسان اللہ کے دین کے لیے بھاگ دوڑ کرے گا‘ محنت اور مجاہدہ کرے گا. نعمت ِہدایت کے ساتھ ذہانت بھی ایک نعمت شمار ہوگی کہ اس کا استعمال اللہ کے دین کے لیے ہو گا‘ ورنہ یہی ذہانت انسان کو evil genius بنا دے گی اور انسان کی اُخروی تباہی کا ذریعہ بن جائے گی تو معلوم ہوا کہ اصل نعمت ہے ہی نعمت ِہدایت!