اب یہ بات نوٹ کیجیے کہ حضو رنبی اکرم کے زمانے میں تونورِ ہدایت بھی مکمل ہو گیا اور دین حق کا غلبہ و اظہار بھی سرزمین عرب کی حد تک مکمل ہو گیا‘ گویا گاڑی کے یہ دونوں پہیے مساوی انداز میں ساتھ ساتھ چلتے اور آگے بڑھتے رہے‘ لیکن حضور اکرم کے دور کے بعد ان دونوں چیزوں کے درمیان ایک فرق واقع ہو گیا. اس فرق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے. 

دیکھئے اتمامِ نور تو قرآن کی شکل میں ہوا کہ ۲۳ برس میں قرآن حکیم کا نزول مکمل ہوا. اس طرح اتمام نور ہو گیا اور اس نور کو قیامت تک کے لیے محفوظ کر لیا گیا ‘اس میں اب کہیں کوئی تحریف نہیں ہو سکتی. لیکن اقامت دین کے مرحلہ کی تکمیل کا کام جس کے لیے سورۃ الصف میں 
’’اظھار دین الحقِّ علی الدِّین کُلِّہ‘‘ کی اصطلاح آئی ہے‘حضور کے زمانے میں ایک حد تک مکمل ہو گیا تھا کہ اندرونِ ملک عرب دین حق کا پرچم لہرانے لگا. پھر دورِ خلافت راشدہ میں اس کی توسیع بڑے بھرپور انداز میں ہوئی. لیکن پھر ایک وقت آیا کہ یہ عمل رک گیا‘ بلکہ رفتہ رفتہ دین کی یہ عالیشان عمارت منہدم ہونے لگی‘ یہاں تک کہ بالکل زمین بوس ہو گئی. اب صورت یہ ہے کہ اسلام محض ایک مذہب کے طور پر تو باقی ہے لیکن دین حق اور نظامِ اسلام اپنی صحیح صورت میں زمین کے کسی ایک خطے میں بھی قائم و نافذ نہیں‘ اور اب غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد ہمیں از سرنو کرنی ہو گی تو یہ ہے وہ بڑا فرق جو اس معاملے میں واقع ہوا کہ دونوں کام جو نبی اکرم کے دور میں گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ساتھ ساتھ چل رہے تھے ‘ بعد میں ہم آہنگ نہ رہ سکے.