جہاں تک نورِ ہدایت کے اتمام کا تعلق ہے ہم مسلمانوں کے لیے یہ کتنی بڑی سہولت ہے کہ ہمیں پورا یقین اور اعتماد ہے کہ اس ’’کتاب ‘‘ میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا ایک حرف بھی ضائع نہیں ہوا. اس لیے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لیا ہے : اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر) ’’ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘.قرآن حکیم اپنی جگہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہے اور اللہ کا مزید فضل و کرم ہم پر یہ ہوا کہ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اُس نے لے لیا. یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس نعمت کی قدر نہیں ہے اور ہم دنیا کی حقیر سی چیزوں کو اس نعمت عظمیٰ پر ترجیح دیتے ہیں.

بہرکیف پہلے کام یعنی ’’اِتمامِ نور‘‘کے ضمن میں ہمارے ذمے صرف ایک کام باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ نورِ ہدایت موجود ہے‘ اسے عام کیا جائے‘ اس کا افشا کیا جائے. حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ چراغ جلا کر بلندی پر رکھا جاتاہے‘ اسے نیچے کہیں چھپا کر نہیں رکھا کرتے. چراغ اگر بلندی پر ہو گا تو ماحول کو منور کرے گا ‘ اس کی روشنی پھیلے گی. تو نورِ ہدایت کا عام کرنا‘ اس سے ماحول کو منور کرنا اور اس کا افشا کرنا ہمارے ذمے ہے. یہی بات اس حدیث نبویؐ میں آ ئی ہے جو حضرت عبیدہ ملیکی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. آپ نے فرمایا: یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ ’’اے قرآن والو‘ قرآن کو تکیہ نہ بنا لینا‘‘. اسے محض ذہنی سہارا نہ بنا لینا. بلکہ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَائِ اللَّـیْلِ وَالنَّھَارِ ’’ اوراس کی تلاوت کیاکرو جیسے کہ اس کی تلاوت کا حق ہے‘رات اور دن کے اوقات میں‘‘. وَأَفْشُوْہُ ’’اور اسے عام کرو‘‘. اسے پھیلائو‘ چہار دانگ عالم تک اس کا نور پہنچا دو! وَتَغَنَّوْہُ ’’اور اس کو خوش الحانی سے حظ لیتے ہوئے پڑھا کرو‘‘. وَتَدَبَّرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ (۱’’اور اس پر غور و فکر کرو‘ تاکہ تم فلاح پاؤ.‘‘ 

اسی بات کا ایک منطقی نتیجہ اور بھی نکلتا ہے جس کا ذکر عظمت قرآن کے بیان میں اس طویل حدیث میں آیا ہے جس کے راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں. اس میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں: 
وَمَنِ ابْتَغَی الْھُدٰی مِنْ غَیْرِہٖ اَضَلَّہُ اللّٰہُ (۲کہ جو شخص اس قرآن کو چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے لازماً گمراہ کر دے گا. جب ہدایت و رہنمائی کا اتنا حتمی اور یقینی منبع و سرچشمہ اور اتنا مکمل ذریعہ (source) تمہارے پاس موجود ہے ‘تو اس کے ہوتے ہوئے ہدایت و رہنمائی کے لیے دائیں بائیں دیکھنا گویا انتہا درجے کی ناقدری ہی نہیں قرآن مجید کی توہین کے مترادف ہے. البتہ اس کا یہ مفہوم سمجھنا بھی درست نہ ہوگا کہ قرآن کے سوا اور کچھ پڑھنا ہی نہیں چاہیے! اور چیزوں کا مطالعہ کیجیے‘ تورات پڑھیے‘ انجیل پڑھیے‘ لیکن انہیں منبع و سرچشمہ ٔہدایت سمجھ کر نہیں بلکہ محض اپنی معلومات میں اضافے کے لیے ان کا مطالعہ کیجیے. وہ اسی کتاب ہدایت کے سابقہ ایڈیشن ہیں جس کا تکمیلی ایڈیشن قرآن حکیم ہے. اسی طرح دوسرے علوم بھی اپنی معلومات میں اضافے کے لیے پڑھے جا سکتے ہیں‘ بلکہ دوسرے علوم کو قرآن مجید کے فہم کاذریعہ سمجھ کر سیکھئے اور پڑھیے‘ اس لیے کہ انسانی ذہن کا ظرف جتنا وسیع اور کشادہ ہو گا اسی کی مناسبت سے قرآن مجید سے ہدایت اور علم و معرفت کے موتی انسان اپنے دامن میں سمیٹ سکے گا. دامن ہی اگر تنگ ہو تو انسان کے حصے میں حکمت و معرفت کے موتی 

(۱) رواہ البیھقی فی شعب الایمان. مشکاۃ المصابیح ‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب آداب التلاوۃ ودروس القرآن. 
(۲) سنن الترمذی‘ ابواب فضائل القرآن‘ باب ما جاء فی فضل القرآن. وسنن الدارمی‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب فضل من قرء القرآن. 
بھی کم ہی آئیں گے. گویا ؏ ’’پھول کھلے ہیں گلشن گلشن‘ لیکن اپنا اپنا دامن!‘‘ قرآن مجید کے اندر تو ہدایت‘ علم اور معرفت کی کوئی کمی نہیں‘ ان کے جواہر سے یہ معدن بھرا پڑا ہے ‘لیکن تمہاری اپنی تنگ دامانی آڑے آجائے تو اس کا کیا علاج؟ 
واضح رہے کہ دوسرے علوم کے ذریعے سے قرآن مجید کی حقانیت کا مزید مبرہن ہوجانا خود قرآن مجید سے ثابت ہے. سورۃ حٰم السجدۃ میں فرمایاگیا: 
سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ (آیت ۵۳’’ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور انفس میں بھی‘ حتیٰ کہ یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ یہ (قرآن مجید) ہی سراسر حق ہے‘‘. گویا جتنا انسان کے علم کا دائرہ وسیع ہوگا قرآن مجید کی حقانیت اسی درجے میں مزید مبرہن ہو جائے گی‘ اسی قدر اس کا اثبات زیادہ ہو گا. ان اعتبارات سے دوسرے علوم سے اعتنا کرنے یا ان سے دلچسپی رکھنے میں کوئی حرج نہیں. لیکن ایک بندۂ مؤمن کے لیے یہ احساس و شعور لازم ہے کہ منبع ہدایت سوائے قرآن کے اور کوئی نہیں! حضوراکرم کی یہ وارننگ ہمیشہ اس کے پیش نظر رہنی چاہیے : وَمَنِ ابْتَغَی الْھُدٰی مِنْ غَیْرِہٖ اَضَلَّہُ اللّٰہُُ. 

خلاصۂ کلام یہ کہ اس اعتبار سے تو اتمامِ نور ہو گیا کہ قرآن حکیم کا نزول حضور اکرم پر مکمل ہوا اور اللہ نے قیامت تک کے لیے اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا‘ لیکن اس ضمن میں ایک کام ہمارے ذمے باقی ہے اور وہ ہے اس نورِ ہدایت کا عام کرنا‘ جس کے لیے حدیث میں 
’’وَاَفْشُوْہُ‘‘ کا لفظ آیا ہے کہ اسے پھیلاؤ اور عام کرو اور یہ افشا ہر سطح پر ہو گا‘ عوام کی سطح پر بھی اسے پھیلانا ہو گا اور خواص کی سطح پر بھی‘ فلسفیوں اور دانشوروں تک بھی اس کے ابلاغ کا حق ادا کرنا ہو گا اور شریر اور جھگڑالو لوگوں پر بھی مجادلہ ٔحسنہ کے ذریعے حجت قائم کرنی ہو گی. یہ سب افشا ہی کی مختلف سطحیں ہیں!