اس گاڑی کا جو دوسرا پہیہ ہے یعنی غلبہ ٔدین حق‘ اس کا معاملہ اس سے مختلف ہے. جزیرہ نمائے عرب کی حد تک نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ میں ’’وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہ ٗ اس گاڑی کا جو دوسرا پہیہ ہے یعنی غلبہ ٔدین حق‘ اس کا معاملہ اس سے مختلف ہے. جزیرہ نمائے عرب کی حد تک نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ میں ’’وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ‘‘ کی شان ظاہر ہوئی اور دین حق کا غلبہ ملک عرب کی حد تک مکمل ہو گیا.پھر خلافت راشدہ کے دوران کرئہ ارضی کے ایک بہت بڑے رقبے پر دین حق غالب و نافذ ہوا اور اسلام کا پرچم لہرانے لگا. لیکن پھر اس معاملے میں زوال کا آغاز ہوگیا اور تدریجاً زوال کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے . یوں سمجھئے کہ سب سے پہلے قصر ِاسلام کی چھٹی منزل گری‘ پھر پانچویں منزل منہدم ہوئی‘ پھر چوتھی اور پھرتیسری‘ اور اس طرح آج سے قریباً ڈیڑھ دو سو برس قبل پوری عمارت زمین بوس ہو گئی. چنانچہ اب اس کی تعمیر ازسرنو کرنی ہوگی.

بہرکیف اس وقت صرف اسی نکتے کی جانب متوجہ کرنا مقصود تھا کہ یہ دو کام بالکل متوازی (parallel) ہیں‘ قرآن مجید نے دونوں مقامات پر یعنی سورۃ التوبہ اور سورۃ الصف میں ان دونوں کو باہتمام یکجا بیان کیا ہے‘ اور اس کا نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ ان دونوں کو متوازی اور متساوی انداز میں آگے بڑھایا جائے. ان میں توازن و اعتدال برقرار رہنا چاہیے. اس پر بھی میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اُس کے فضل و کرم کے طفیل یہ دونوں چیزیں ہمارے یہاں بالکل متساوی اور متوازی شکل میں چل رہی ہیں. مرکزی انجمن خدام القرآن اور اس کے تحت قائم ہونے والی قرآن اکیڈمی اور اسی طرح ذیلی انجمنیں اور ذیلی اکیڈمیزجو وجود میں آ رہی ہیں ‘یہ سب درحقیقت ہماری گاڑی کے ایک پہیے کے مظاہر ہیں ‘جو الحمد للہ نہ صرف یہ کہ ایک تسلسل کے ساتھ رواں دواں ہے بلکہ اس کی رفتار میں بتدریج اضافہ بھی ہو رہا ہے. دوسرا پہیہ تنظیم اسلامی سے عبارت ہے جس کی حرکت کو تیز کرنے کے لیے ہم نے ’’تحریک خلافت‘‘ کا عنوان اختیار کیا ہے. لیکن تنظیم اسلامی اور تحریک خلافت اصلاً ایک ہی کام کے دو گوشے یا دو مرحلے ہیں اور اس تمام تر کام کا ہدف ایک ہی ہے ‘ یعنی دین حق کا غلبہ و اقامت. چنانچہ فی الاصل کام دو ہی ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی ہیں. ایک ہے رجوع الی القرآن کی دعوت جس کے لیے مرکزی انجمن سرگرم عمل ہے اور دوسرا ہے اقامت دین کی جدوجہد جس کی خاطر تنظیم اسلامی اور تحریک خلافت برسرِعمل ہیں.