ایک اور لائق ِشکر اور قابل ِاطمینان پہلو

تیسری بات جس پر میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہتا ہوں اور جس کا میں نے بارہا ذکر بھی کیا ہے‘ یہ ہے کہ اس کام کے باقی اور جاری رہنے کا اہتمام اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہو گیا ہے. مجھے اپنی زندگی میں یہ نظرآ رہا ہے اور مجھے یہ اطمینان حاصل ہے کہ اس کام کا تسلسل ان شاء اللہ برقرار رہے گا. یہ بھی یقینا اللہ کا بہت بڑا فضل ہے‘ ورنہ بعض بڑی نامور ہستیاں ایسی ہو گزری ہیں کہ جنہوں نے اپنی زندگیوںمیں بڑے بڑے کام کرکے دکھائے لیکن ان کے جانے کے بعد اس کام کا تسلسل قائم نہیں رہ سکا. ایک آدمی منظر سے ہٹا اور کام ختم ہو گیا. تو میرے لیے یہ بات بڑے اطمینان کی ہے اور اس پر بھی میں جتنا اللہ کاشکر ادا کروں کم ہے اور میرے ساتھیوں کو بھی اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے. 

بالخصوص یہ جو بنیادی کام دعوت رجوع الی القرآن کا ہے اس کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ بحمداللہ اب ایک ایسی نسل ثانی تیار ہو چکی ہے اور کم و بیش چالیس پچاس نوجوانوں پر مشتمل ایک ایسی ٹیم وجود میں آ چکی ہے جو درسِ قرآن کے اس تسلسل کو ان شاء اللہ برقرار رکھے گی جس کا میں نے کبھی ۱۹۶۵ء میں آغاز کیا تھا. مجھے اطمینان ہے کہ دروس قرآن کے حوالے سے قرآن کا انقلابی فکر اور اس کا صغریٰ کبریٰ ان کے ذہن و فکر کی گرفت میں آ چکا ہے‘ اس میں جو منطقی ترتیب (logical sequence) ہے اسے انہوں نے خوب اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے اور وہ اب اس قابل ہیں کہ اسے بیان بھی کر سکیں.ظاہر بات ہے کہ صلاحیت ِبیان میں نکھار تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور اس صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے ہی سے پیدا ہو گا‘ لیکن اصل شے بنیادی فکر اور اس کے طرزِ استدلال کا ذہن کی گرفت میں آنا ہے ‘جو الحمد للہ انہیں حاصل ہے. اس کے بعد تو پھر اپنی اپنی محنت اور کوشش ہے. اس فکر قرآنی کو عام کرنے اور بیان کرنے میں جتنی محنت اور جس درجےپیہم کوشش ہو گی اسی نسبت سے ان کی صلاحیت نکھرے گی. چنانچہ گزشتہ سالانہ اجتماع کے موقع پر میرا کوئی درسِ قرآن نہیں ہوا تھا‘بلکہ درسِ قرآن میرے نوجوان ساتھیوں نے دیا. اس سال بھی سالانہ اجتماع میں انہی نوجوان ساتھیوں نے دروسِ قرآن دیے. 

ذیلی انجمنوں اور ان کے تحت اکیڈمیز کا قیام

اسی طرح یہ بات بھی بڑی خوش آئند اور لائق تشکر ہے کہ مرکزی انجمن کی کوکھ سے اب تک کئی منسلک اور ذیلی انجمنیں برآمد ہو چکی ہیں. اس سال ۲۰ /اپریل(۱۹۹۲ء) کو مرکزی انجمن کا جو اجلاس عام ہوا اس میں پہلی مرتبہ بہت سے حضرات کے سامنے یہ بات آئی ہو گی کہ پاکستان کے کئی شہروں میں مرکزی انجمن کے طرز پر منسلک انجمنیں قائم ہو چکی ہیں. یہ پہلی بار ہوا کہ ہمارے اس اجلاسِ عام میں ذیلی انجمنوں کے نمائندے بھی شریک ہوئے اور انہوں نے بھی اپنے اپنے علاقے کی انجمن خدام القرآن کا مختصر تعارف کرایا اور خدمت قرآنی کے میدان میں اپنی پیش رفت کا بھی اختصار کے ساتھ ذکر کیا. اس سے بھی بڑھ کر مقامِ شکر یہ ہے کہ ان انجمنوں کے زیراہتمام قرآن اکیڈمیز کی تعمیر کا کام بھی شروع ہو چکا ہے. قرآن اکیڈمی کراچی کی نہ صرف یہ کہ تعمیر ایک حد تک مکمل ہو چکی ہے بلکہ وہاں دینی تعلیم کے ایک سالہ کورس کی تدریس کا آغاز بھی ہو چکا ہے. 

یہ حقیقت ہے کہ پہلی مرتبہ کسی کام کا شروع کرنا مشکل ہوتا ہے‘ لیکن ایک بار محنت کرنے سے جب ایک 
pattern اور عملی نمونہ سامنے آ جاتا ہے تو اس کام کا کرنا مشکل نہیں رہتا. اس اعتبار سے ظاہر بات ہے کہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی تشکیل اور قرآن اکیڈمی کے قیام میں محنت بھی زیادہ صرف ہوئی اور وقت بھی بہت لگا. لاہور میں مسلسل پانچ چھ برس میں نے فکر قرآنی کی اشاعت کا کام تن تنہا کیا جس کے نتیجے میں بحمد اللہ ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن وجود میں آئی. پھر مزید پانچ سال بعدقرآن اکیڈمی کی پہلی اینٹ رکھنے کی نوبت آئی. عمارت کی تعمیر بھی مرحلہ وار ہوئی. آغاز میں صرف دفاتر یا رہائشی بلاک کی تعمیر عمل میں آئی. پھر کئی برس بعد جا کر قرآن اکیڈمی میں دینی تعلیم کے دوسالہ کورس کا آغاز ہوا. اس طرح یہ داستان برسوں پر محیط ہے. اس لیے کہ یہ کام پہلی بار ہو رہا تھا.

لیکن اب جبکہ اس کام کا ایک ہیولیٰ اور ابتدائی خاکہ بن چکا ہے اور اس کے بہت سے مراحل طے ہو چکے ہیں تو قوی امید ہے کہ بقیہ جگہوں پر مرکزی انجمن کی نہج پر جو کام ہو رہے ہیں ان میں اتنا وقت نہیں لگے گا بلکہ تیز رفتاری کے ساتھ انجمن کی تاسیس سے لے کر قرآن اکیڈمی کی تعمیر اور آغازِ تدریس تک کے مراحل طے کیے جا سکیں گے. چنانچہ کراچی میں بحمداللہ کام کی رفتار تیز ہے. اب ملتان میں بھی اللہ کے فضل و کرم سے ایک اکیڈمی وجود میں آ چکی ہے‘ اس سال رمضان میں وہاں میرا دورئہ ترجمہ ٔقرآن بھی ہوا ہے اور اب امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک سال میں وہاں قرآن کالج کا آغاز ہو جائے گا. فیصل آباد میں منسلک انجمن موجود ہے. وہاں اکیڈمی کے لیے بعض مخیر خواتین نے ایک خاصا وسیع قطعہ زمین ہمیں ہبہ کیا ہے اور اب وہاں بھی تعمیر کا کام شروع ہوا چاہتا ہے. مجھے پوری توقع ہے کہ اس سالانہ اجلاس عام کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ ان شاء اللہ العزیز پشاور‘ رحیم یار خان ‘ حیدر آباد اور اسلام آباد میں بھی بہت جلد ذیلی انجمنوں کا قیام عمل میں آجائے گا. اور ہو سکتا ہے کہ اسی سال کے دوران وہاں اکیڈمیز کا کام بھی شروع ہو جائے . وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ!