اسی طرح یہ بات بھی بڑی خوش آئند ہے کہ اس سال ماہِ رمضان المبارک میں دورۂ ترجمۂ قرآن کا پروگرام قریباً گیارہ بارہ جگہوں پر ہوا ہے. اس کے ضمن میں تو مجھے کبھی کبھی حفیظ کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ ؎
کیا پابند ِنَے نالے کو میں نے
یہ طرزِ خاص ہے ایجاد میری!
یہ بات میں نے بغیر کسی عجب کے محض امر ِواقعہ کے طور پر عرض کی ہے‘ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا فضل ہے کہ اس نے میرے ذہن کو ادھر منتقل کیا. ہم نے جب نمازِ تراویح کے ساتھ بیان القرآن کا آغاز کیا تو شروع میں تراویح کے اختتام پر یا کبھی بیچ بیچ میں پندرہ بیس منٹ یاآدھ گھنٹے کا بیان ہوتا تھا. اس کے بعد میرا ذہن اس حقیقت کی جانب منتقل ہوا کہ احادیث مبارکہ میں تو رمضان المبارک کے دو گونہ پروگرام کا ذکر ملتا ہے ‘یعنی دن کا روزہ اور رات کا قیام قرآن حکیم کے ساتھ‘ یہ دونوں بالکل متوازی پروگرام ہیں. اس پہلو سے محض نماز تراویح ادا کرنے یا ایک آدھ گھنٹے میں خلاصۂ مضامین کے بیان سے تو رمضان المبارک کا حق ادا نہیں ہوتا. چنانچہ پھر (۱۹۸۴ء میں) دورئہ ترجمہ قرآن کا پروگرام شروع کیا گیا ‘اور بحمد اللہ اس بار آٹھواں یا نواں موقع تھا کہ مجھے دورۂ ترجمہ ٔقرآن کی تکمیل کی سعادت حاصل ہوئی اس سال یہ پروگرام پانچ جگہوں پر ہوا.
ایک جگہ میں نے قرآن کا ترجمہ بیان کیا اور چار دیگر جگہوں پر میرے شاگردوں نے مکمل ترجمۂ قرآن بیان کیا. مزید برآں دوران رمضان نماز تراویح کے ساتھ چار پانچ جگہوں پر ویڈیو کے ذریعے یہ پروگرام لوگوں نے دیکھا اور سنا. رجوع الی القران کی یہ لہر الحمد للہ بڑھ رہی ہے اور اس میں لوگوں کا قرآن سے شغف اور تعلق بڑھ رہا ہے. پوری رات قرآن حکیم اور اس کا مفہوم سننے اور سمجھنے میں جو لذت ہے اس کا اس سے پہلے لوگوں کو تجربہ نہیں تھا. ؏ ’’چوں معاملہ نہ دارد سخن آشنا نہ باشد!‘‘جب تک باہم محبت کا رشتہ نہ ہو اس وقت تک گفتگو کے اندر بھی وہ لوچ اور مٹھاس پیدا نہیں ہوتی. ہاں جب قرآن پاک سے تعارف ہوجائے اور اس سے ایک تعلق خاطر پیدا ہو جائے تو معاملہ بالکل مختلف ہو جاتاہے‘ پھر پوری رات انسان قرآن پڑھنے پڑھانے یا سننے سنانے میں گزار دیتا ہے اور یہ چیز اس پر ہرگز گراں نہیں گزرتی!