اس ضمن میں ایک اور نکتہ اشارتاً عرض کیے دیتا ہوں اور اس میں بھی میرے لیے اطمینان کا بہت کچھ ساما ن مضمر ہے. سورۃ ابراہیم میں ایک پاکیزہ درخت کی جو مثال آئی ہے وہ ہمارے اس کام پر بحمد اللہ بہت حد تک صادق آتی ہے : اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ کسی بھی شجرۂ طیبہ یعنی پاکیزہ درخت کی یہ مثال ہے کہ اس کی جڑ مضبوطی کے ساتھ زمین میں قائم ہو اور اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں . الحمد للہ کہ ہمارے کام کی بھی یہی شان ہے. دعوت رجوع الی القرآن کا کام اس پوری تحریک کی جڑ کے مانند ہے جو مضبوطی کے ساتھ زمین میں پیوست ہے. اس میں ہماری صلاحیتیں اور ہمارے وسائل بھرپور طور پر صرف ہو رہے ہیں. تنظیم اسلامی اس شجرٔہ طیبہ کے تنے کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے برگ و بار اور اس کی شاخوں کا مقام تحریک خلافت کو حاصل ہے. اللہ کو اگر منظور ہوا تو یہ کام ضرور آگے بڑھے گا. 

میں نے اپنا یہ تجزیہ کئی مواقع پر آپ کے سامنے رکھا ہے کہ پاکستان کے استحکام اور اس کے بقا کا اگر کوئی راستہ ہے تو یہی ہے کہ یہاں وہ صحیح اور مکمل اسلامی نظام قائم ہو جس کا عنوان ’’نظامِ خلافت‘‘ ہے. اگر پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے اللہ نے کسی خیر کا ارادہ فرمایا ہے تو قوی امید ہے کہ یہ تحریک آگے بڑھے گی اور سرزمین پاکستان پر نظامِ خلافت کا قیام و نفاذ ہو گا. اس لیے کہ پوری دنیا کے اوپر اسلام کا جو غلبہ ہونا ہے جس کی صریح پیشین گوئیاں حضوراکرم کی احادیث میں موجود ہیں ‘ ظاہر بات ہے کہ اس عمل کا آغاز کسی ایک خطہ ٔزمین ہی سے ہو گا‘ اور اگر یہ اللہ کی مشیت میں ہے کہ اس عمل کا نقطہ ٔآغاز سرزمین پاکستان بنے تو یقینا؍؍؍ًغلبہ و اقامت دین کی یہ جدوجہد آگے بڑھے گی اور اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کریں گی. ہاں ہم میں سے ہر شخص کو اپنی انفرادی حیثیت میں یہ ضرور سوچناچاہیے کہ اس جدوجہد میں اس کا ذاتی حصہ (contribution) کتنا ہے. اس لیے کہ اللہ کے ہاں تو حساب کتاب انفرادی بنیادوں پر ہو گا : وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَرۡدًا ﴿۹۵﴾ (مریم) وہاں تو ہر شخص انفرادی حیثیت میں پیش ہو گا. ہر شخص کو اس کا اعمال نامہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا اور حکم ہو گا : اِقۡرَاۡ کِتٰبَکَ ؕ کَفٰی بِنَفۡسِکَ الۡیَوۡمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا ﴿ؕ۱۴﴾ (بنی اسرائیل) .یہ تمہاری بیلنس شیٹ موجود ہے‘ اسے پڑھو اور آج اپنے حساب کے لیے تم خود ہی کافی ہو. تو ہم میں سے ہر شخص کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ دین کی جانب سے اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ انہیں ادا کر رہا ہے یا نہیں!