کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ توکل کے لفظ کا قرآن حکیم کے ساتھ اس طور پراستعمال شاید کچھ غیر مناسب ہے. چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ اس بات کو پوری وضاحت سے بیان کروں. دیکھئے‘ قرآن مجید ہی سے یہ بات ثابت ہے کہ جو تاثیر تجلی ذاتِ باری تعالیٰ کی ہے وہی تاثیر قرآن مجید کی بھی ہے. سورۃ الاعراف میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ ربّ العزت میں درخواست کی : رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ کہ اے پروردگار !میں تجھے بچشم سر دیکھنا چاہتا ہوں. اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ سلام کو یہ بات سمجھانے کی غرض سے کہ وہ تجلی ٔذاتِ حق کا تحمل نہ کر پائیں گے‘ اپنی ایک تجلی پہاڑ پرڈالی. قرآن حکیم نے اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے: فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا (آیت ۱۴۳) کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی تجلی ذات کے بالواسطہ مشاہدے کا تحمل بھی نہ کر سکے اور بے ہوش ہو کر گرپڑے.
یہی بات قرآن مجید کی عظمت کے بارے میں ایک تمثیل کے پیرائے میں سورۃ الحشر میں آئی ہے : لَـوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّـرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ (الحشر:۲۱) ’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اُتار دیتے تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کی خشیت سے‘‘. تو درحقیقت جو تاثیر تجلی ٔباری تعالیٰ کی ہے وہی ہیبت اور وہی دبدبہ کلامِ باری تعالیٰ کا ہے. ان دونوں میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں.اس حقیقت کو بھی علامہ اقبال نے خوب سمجھا اور بڑی خوبصورتی سے اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے. میرے علم کی حد تک اس دور میں اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے ذہن کی رسائی یہاں تک ہوئی ہو. فرماتے ہیں: ؎
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثل ِحق پنہاں و ہم پیداست ایں
زندہ و پائندہ و گویاست ایں
کہ میں تم سے صاف ہی کہہ دوں جو کچھ میرے دل میں ہے‘ یہ کتاب نہیں کچھ اور شے ہے. اسے عام معنوں میں کتاب نہ سمجھو‘ یہ ’’چیزے دگر‘‘ ہے. یعنی جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات الظاہر بھی ہے اورالباطن بھی ‘ اسی طرح یہ کتاب بھی بیک وقت ان دونوں متضاد صفات کی حامل ہے. اور جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات الحی اور القیوم ہے اسی طرح اس کا کلام بھی زندہ و پائندہ ہے. قرآن حکیم کے لیے ’’کتاب زندہ‘‘ کے الفاظ تو اقبال نے اور بھی کئی مقامات پر استعمال کیے ہیں. مثلاً ؎
ایں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمت اُو لایزال است و قدیم
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی قوت تسخیر کے بارے میں ہم نے بڑی ناقدری کا معاملہ کیا ہے. ہمیں نہ تو قرآن حکیم کی عظمت کا ادراک حاصل ہے اور نہ اس کی قوت تسخیر پر اعتماد. ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ کتنی بڑی نعمت اور کیسی عظیم قوت ہے جو اللہ نے قرآن حکیم کی صورت میں ہمیں عطا فرمائی ہے.