اسی ضمن میں سورۃ طٰہٰ کی ابتدائی دو آیات اور سورۃالقصص کی آیت ۸۵ کے حوالے سے بھی میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں. سورۃ طٰہٰ کی پہلی آیت حروف مقطعات پر مشتمل ہے: طٰہٰ ۚ﴿۱﴾ جبکہ دوسری آیت: مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾ میں ایک عظیم حقیقت کا بیان ہے. یہاں خطاب نبی اکرم سے ہے کہ اے نبیؐ ‘ ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ ناکام ہوں یا بے مراد ہوں یہاں ایک تھوڑی سی تفسیری وضاحت ضروری ہے.اکثر مفسرین نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے: ’’اے نبیؐ ‘ یہ قرآن ہم نے آپ پر اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں‘‘. لفظ ’’تَشْقٰی‘‘ کا مادہ ’’ش ق ی‘‘ ہے جس سے ’’شقی‘‘ کا لفظ بنا ہے. یہ لفظ ’’سعید‘‘ کے مقابلے میں آتا ہے. 

چنانچہ شقی اس کو کہتے ہیں جو بدبخت ہو‘ ناکام ہو‘ بے مراد ہو. یعنی وہ شخص جس کی جدوجہد لاحاصل رہے‘ نتیجہ خیز نہ ہو رہی ہو‘ وہ شقی ہے. جبکہ مشقت کا لفظ ’’ش ق ق‘‘ کے مادے سے بنتا ہے. یہ دونوں مادے چونکہ ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اور اسی قرب کے باعث ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہو جاتے ہیں‘ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر مترجمین نے ’’لِتَشقیٰ‘‘ کا ترجمہ ’’مشقت‘‘ سے کیا ہے.

تاہم مجھے ان سے اختلاف ہے. یہاں درحقیقت یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اے محمد ( ) یہ قرآن آپؐ پر اس لیے نازل نہیں ہوا کہ آپؐ ناکام ہوں‘ یہ تو کامیابی کی ضمانت ہے. اس قرآن میں جو قوت تسخیر اور جو تاثیر مضمر ہے اس کے پیش نظر یہ ممکن نہیں ہے کہ اس سب کے ہوتے ہوئے آپؐ ناکامی سے دوچار ہوجائیں. آپؐ یقینا کامیاب ہوں گے اور منزل مراد تک پہنچیں گے. اس دنیا میں بھی آپؐ کی جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہو گی اور آخرت میں بھی آپؐ کے مراتب بلند سے بلند تر ہوں گے. شقاوت آپؐ کے حصے میں نہیں آسکتی‘ نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں.

یہ قرآن آپؐ کی کامیابی کی ضمانت ہے‘ یہ شقاوت کی ہر اعتبار سے نفی کرنے والا ہے. اب آپ غور کیجیے کہ اس میں ہر اس شخص کے لیے جو قرآن مجید کی کسی بھی درجے میں خدمت کر رہا ہو‘ کس قدر بشارت ہے اور اس کی دلجوئی کا کتنا کچھ سامان اس میں مضمر ہے :مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾ اس قرآن کی شمشیر کو ہاتھ میں لو‘ اس کے حقوق کوادا کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جاؤ‘ تم خود اپنی آنکھوں سے اس کی قوتِ تسخیر کا مشاہدہ کرو گے. اس کے اندر جو ہیبت پنہاں ہے اور اس میں جوبے پناہ تاثیر پوشیدہ ہے‘ قدم قدم پر اس کے مظاہر تمہارے سامنے آئیں گے اور تم بچشم سر ان کا مشاہدہ کر سکو گے. 

اس ضمن میں تیسری آیت جس کا میں حوالہ دینا چاہتا ہوں‘ سورۃ القصص کے آخری حصے میں وارد ہوئی ہے. تفسیری اعتبار سے اس آیت کے مفہوم کی تعیین میں بھی کچھ اختلاف کیا گیا ہے.فرمایا: 
اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ (آیت۸۵’’( اے نبی !) جس ہستی نے آپ پر یہ قرآن لازم کیا ہے‘ (اس قرآن کی تبلیغ اور اس کے ابلاغ کا فرض جس نے آپ پر عائد کیا ہے ) وہ آپ کو لازماً لوٹائے گا ایک اعلیٰ لوٹنے کی جگہ کی جانب‘‘ بعض حضرات نے یہاں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ’’معاد‘‘ سے مراد مکہ مکرمہ ہے.ان حضرات کے نزدیک اس آیت کا تعلق آپؐ کے سفر ہجرت سے ہے کہ جب آپؐ ہجرت کے لیے مدینہ تشریف لے جا رہے تھے تو مشرکین مکہ کے تعاقب سے بچنے کے لیے کچھ دور تک آپؐ نے عام شاہراہ سے ہٹ کر ایک مشکل راستہ اختیار کیا تھا. اس لیے کہ اگر آپؐ عام شاہراہ پر سفر کرتے تو تعاقب کرنے والوں کی نگاہ میں آتے جاتے . چنانچہ آپؐ نے وہ پہاڑی راستہ اختیار کیا جو بالکل غیر مستعمل اور غیر مانوس تھا. لیکن تقریباً ایک تہائی سفر طے کرنے کے بعد آپؐ پھر اسی شاہراہ پرآ گئے جو مکہ سے مدینہ کی طرف جاتی تھی.

جب آپؐ وہاں پہنچے تو چونکہ وہاں آپؐ کے لیے ایک دوراہے کی صورت بن گئی تھی کہ ایک راستہ مکہ کو جاتا تھا اور دوسرا مدینہ کی جانب‘ تو دل میں ہوک سی اٹھی‘ گویامکہ نے پھر اپنی طرف کھینچا‘ بیت اللہ اور حرم مکی سے جو محبت محمد رسول اللہ کو تھی‘ اس نے آپؐ کو وقتی طو رپر بے چین کیا‘ اُس وقت دلجوئی کے لیے یہ آیت نازل ہوئی : اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ کہ اے نبی ! آپ گھبرایئے نہیں‘ مکہ اور بیت اللہ سے آپ کی یہ جدائی عارضی ہوگی‘ ہجر کا یہ معاملہ مستقل نہیں رہے گا‘ یقینا وہ ربّ جس نے آپؐ پر قرآن مجید کی تبلیغ اور اس کی دعوت کا فریضہ عائد کیا ہے وہ آپ کو لوٹا کر لے جائے گا لوٹنے کی جگہ یعنی مکہ مکرمہ! 

میرے نزدیک یہ بات اپنی جگہ ایک لطیف خیال کے درجے میں تو صحیح ہے‘ لیکن اگر سورۃ القصص کے زمانہ ٔ نزول کو دیکھا جائے اور بعض دیگر قرائن کو پیش نظر رکھا جائے تو اس آیت کی یہ تاویل مطابق ِواقعہ معلوم نہیں ہوتی. سورۃ القصص اپنے مضامین اوراسلوب کے اعتبار سے ان سورتوں میں شمار ہوتی ہے جو حضور اکرم کے مکی دور کے درمیانی عرصے میں نازل ہوئیں. پھر یہ بات بھی بڑی قابل لحاظ ہے کہ فتح مکہ کے بعد بھی رسول اللہ نے دوبارہ مکہ میں قیام اختیار نہیں فرمایا‘ حالانکہ فتح مکہ کے بعد اگر آپؐ چاہتے تو وہیں قیام فرماتے‘ مدینہ مراجعت اختیار نہ فرماتے.

اس اعتبار سے بھی وہ تاویل خلافِ واقعہ بنتی ہے. صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ ’’معاد‘‘ سے مراد ہے آپؐ کا مقام‘ آپؐ کے لوٹنے کی جگہ‘ اعلیٰ انجام. جیسے کہ سورۃ بنی اسرائیل میں بشارت کے طور پر فرمایا گیا:عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا ﴿۷۹﴾ کہ آپؐ کو تو آپ کا رب مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا.اس لیے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص قرآن کی دعوت و تبلیغ میں لگا ہوا ہو‘ لوگوں کو قرآن حکیم کی طرف بلانے میں وہ رات دن ایک کر رہا ہو اور پھر وہ ناکام ہو جائے ! نہیں‘ ایسا نہیں ہے‘ بلکہ اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ ٍ اے نبی ! یقینا آپؐ بہت اعلیٰ انجام سے دوچار ہوں گے‘ آپؐ کی جدوجہد کا بہت اعلیٰ نتیجہ نکلے گا جس سے کہ آپ ہم کنار ہوں گے. حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں آیات قرآن مجید کے بارے میں بڑی عظیم بشارتوں پر مشتمل ہیں.