اس دوسری آیت کے بارے میں غور وفکر کرتے ہوئے مجھے اپنی زندگی کا ایک واقعہ یاد آیا. بلکہ چونکہ آج دو چیزوں کا تذکرہ چل رہاہے یعنی مرکزی انجمن اور تنظیم اسلامی تو اس مناسبت سے دو ہی واقعات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں. ان دونوں کا تعلق ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۵ء تک کے عرصے سے ہے ‘جب مرکزی انجمن خدام القرآن قائم ہوئی اور تنظیم اسلامی کے قیام کے لیے میدان ہموار ہو رہا تھا. ان میں سے ایک واقعہ دراصل ایک خواب ہے جس کا تذکرہ میں کچھ ڈرتے اور جھجکتے ہوئے کر رہا ہوں کہ کہیں لوگ یہ خیال نہ کریں کہ اب یہ بھی خوابوں کی دنیا میں آ گیا. یہ خواب آج سے بیس برس پہلے کا ہے اور اس سے قبل میں نے بعض قریبی احباب کو سنایا بھی ہے. جس زمانے میں‘میں تنظیم ِاسلامی کے قیام کے بارے میں سوچ بچار کر رہا تھا اور تقریباً اس کے قیام کافیصلہ کر چکا تھا میں نے یہ عجیب و غریب خواب دیکھا. خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں مر گیا ہوں اور میں اپنے جنازے کا منظر بھی ایک چشم دید گواہ کی حیثیت سے خود کھڑادیکھ رہا ہوں. میں اپنی موت کے تمام مراحل یہاں تک کہ قبر میں اتارے جانے کا بھی خود مشاہدہ کر رہا ہوں.

یہ ایک عجیب تجربہ تھا کہ میری نگاہوں کے سامنے مجھے قبر میں اتارا جارہا تھا.میں نے اسی وقت بعض بزرگوں سے اس خواب کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑی بشارت ہے. یہ اس بات کی علامت ہے کہ تمہاری زندگی کا ایک دور ختم ہو گیا ہے اور دوسرا دور اب شروع ہو ا چاہتا ہے. یعنی ایک عزم مصمم کے ساتھ اقامت دین کی تحریک کے از سر نو آغاز کا جو ارادہ کر لیا ہے یہ درحقیقت اس بات کے مترادف ہے کہ ایک زندگی ختم ہوئی اور ایک بالکل نیا دور اب شروع ہو رہا ہے. (واللہ اعلم!) 

دوسراواقعہ بھی میری ایک ایسی کیفیت سے متعلق ہے جو بیداری اور نیند کے بین بین تھی. واقعے کے سرور اور لذت کا ابھی تک مجھے احساس ہوتا ہے. یہ خواب نہیں تھا بلکہ ایک خاص کیفیت تھی جو نیم غنودگی کی حالت میں مجھ پر طاری ہوئی. کچھ 
’’بَیْنَ النَّوْمِ وَالْـیَقْظَۃ‘‘ کا سا معاملہ تھا. نیند اور بیداری کے مابین ایک کیفیت میں‘ میں محسوس کرتا ہوں کہ لگاتار ایک آواز میرے کان میں آ رہی ہے. کوئی مسلسل مجھے یہ الفاظِ قرآنی سنا رہا ہے : اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ . اس کے بعد جب میں پوری طرح بیدار ہوا تو ایک عجیب سرور‘ انبساط اور انشراح کی کیفیت جس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں‘ مسلسل کئی روز تک بلکہ کافی عرصے تک مجھ پر طاری رہی. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس وقت مجھے تلاش کرنا پڑا تھا کہ یہ آیت قرآن حکیم کے کس حصے اور کس سورۃ میں ہے. اس لیے کہ میرا معاملہ یہ ہے کہ قرآن مجید کا باضابطہ مطالعہ تو اگرچہ بحمد اللہ زمانہ طالب علمی سے جاری ہے لیکن زیادہ تفصیلی غور وفکر کا اصل موقع مجھے اپنے سلسلہ وار درسِ قرآن حکیم کے ساتھ ملا‘ بالخصوص تفسیری اختلافات اور مختلف آراء کے مابین اپنی آخری رائے میں نے زیادہ تر اپنے مسلسل درس کے دوران ہی قائم کی ہے. اور اُس وقت جبکہ میں اِس دلفریب تجربے سے گزرا میرا درس‘ قرآن حکیم کے اس مقام تک نہیں پہنچا تھا. اگر تو ایسا ہوتا کہ سورۃ القصص انہی دنوں میرے زیر درس آئی ہوتی اور اس وجہ سے میرے ذہن پر یہ کیفیت طاری ہوتی تو شاید میں اس کی کوئی دوسری تاویل کرتا‘ لیکن چونکہ یہ بات نہیں تھی لہذا اسے میں نے اپنے حق میں بہت بڑی بشارت سمجھا. سرور و انبساط کی کیفیت دیر تک مجھ پر طاری رہی اور ان الفاظِ قرآنی کی مٹھاس اور حلاوت کا تاثرایک عرصے تک میرے قلب و ذہن کو فرحت بخشتا رہا.