ذہن و قلب پر قرآن حکیم کا تسلط اور اس کے مظاہر

قرآن حکیم کی قوتِ تسخیر کے ضمن میں میں ایک اصطلاح استعمال کیا کرتا ہوں کہ قرآن اپنے طالب کو possess کر لیتا ہے‘ اس کے ذہن و قلب کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے. میرے بعض ساتھی یہی لفظ میرے لیے استعمال کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ میرا اپنا احساس یہ ہے کہ میں اگر اس کیفیت سے نکلنا یا نکلنے کی غرض سے ہلنا بھی چاہوں تو ہل نہیں سکتا. اس لیے کہ اللہ کے فضل و کرم سے میں جس طرح اس کام میں لگا ہوں اس طور سے کام اپنے کسی ارادے اور منصوبے کے تحت نہیں ہوا کرتے. ایسی کیفیت تو اسی شخص کی ہوسکتی ہے جو کسی عظیم قوتِ تسخیر کے زیراثر کسی شکنجے میں آ گیا ہو‘ جکڑا گیا ہو. حالانکہ ایسا بھی ہوا کہ کئی کام جو میں نے بالا رادہ شروع کیے‘ کوشش کے باوجود میں انہیں مکمل نہیں کر سکا.مثلاً ایک موقع پر میں نے اپنے ذاتی حالات لکھنے شروع کیے لیکن وہ سلسلہ بیچ ہی میں کہیں رک گیا. خدمت قرآنی کا کام بھی اگر میں محض اپنے ارادے کے تحت کرتا تو اس طور سے ہرگز نہ کر پاتا جیسا کہ اللہ نے مجھ سے کروایا ہے. اللہ کی تائید و توفیق قدم قدم پر میرے شامل حال رہی. میں نے جب اپنی میڈیکل پریکٹس بند کی تو کوئی ذریعہ معاش تھا نہ کوئی جائیداد میرے پاس موجود تھی. لیکن میں نے توفیق الٰہی سے یہ طے کر لیا تھا کہ اب جسم و جان میں جو بھی توانائی کی رمق باقی ہے وہ اسی کام میں لگے گی. میرے پاس کرشن نگر میں اپنی رہائش کے لیے بس ایک مکان تھا (جسے بعد میں بیچ کر قرآن اکیڈمی کے سامنے مکان بنوایا) اس کے سوا اور کوئی جائیداد میرے پاس موجود نہیں تھی‘ لیکن اللہ نے ہمت دی ا ور میں نے طے کر لیا کہ آئندہ زندگی کا کوئی لمحہ اب تلاش معاش میں صرف نہیں ہوگا‘ سارا وقت اور صلاحیتیں ’’معاد‘‘ کے حصول میں صرف ہوں گی. 

ظاہر بات ہے کہ یہ فیصلہ آسان نہیں تھا. میرے پاس اگر وسائل ہوتے‘ جاگیریں ہوتیں اور ان کے بل پر میں یہ فیصلہ کرتا تو معاملہ مختلف ہوتا. الحمد للہ میرے چار بھائی ہیں اور بعض نے مختلف مواقع پر مجھ سے تعاون بھی کیا ہے‘ لیکن اتفاق کی بات ہے کہ اُس وقت بھائیوں میں سے کسی کا بھی تعاون مجھے حاصل نہیں تھا. البتہ چھوٹے 
بھائی اقتدار احمد نے تعاون کیا‘ لیکن ا س کی نوبت بہت بعد میں آئی (۱. انہوں نے بعدمیں ایک موقع پر جب مجھے یہ پیشکش کی کہ میں آپ کے کام میں شریک ہونا چاہتا اور آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہوں تو پہلی بات میں نے ان سے یہ کہی کہ اگر تو صرف بھائی ہونے کے ناطے سے تعاون کرنا چاہتے ہو تو مجھے قبول نہیں‘ ہاں اگر تمہیں میرے اس مشن کے ساتھ کوئی دلچسپی ہے اور اس میں تعاون کرنا چاہتے ہو تو سر آنکھوں پر. بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ یہ قرآن کی قوتِ تسخیر ہی کا اثر تھا کہ کسی قسم کے معاشی وسائل نہ رکھتے ہوئے بھی اور کسی دُنیوی سہارے کے موجود نہ ہوتے ہوئے بھی میں نے اپنی میڈیکل پریکٹس کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا اور دعوت رجوع الی القرآن کے کام میں ہمہ وقت مشغول ہو گیا. اسے اس کے سوا اور کیاکہا جا سکتا ہے کہ قرآن ہی نے مجھے possess کر لیا تھا اور میرے ذہن و قلب کو پورے طور پر اپنی گرفت میں لے لیا تھا!