عوامی سطح پر ہمارے جو دینی تصورات ہیں ان میں عمل سے فرار کا عنصر بہت نمایاں ہے. اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ نبی مکرم کو اتنا اونچا کرو‘ اتنا اونچا کرو‘ کہ خدا کے برابر بٹھا دو. تو جب خدا کے برابر بٹھا دو گے تو اب اتباع کا سوال ہی نہیں ہے. اب تو حمد ہی ہو سکتی ہے‘ تعریف ہی ہو سکتی ہے‘ آپؐ کی شان میں نعت کہی جا سکتی ہے‘ لیکن آپؐ کا اتباع تو نہیں ہو سکتا. اتباع تو کسی انسان ہی کا ہو سکتا ہے‘ کسی معبود کا تو نہیں ہو سکتا. آپ اللہ کی اطاعت کریں گے‘ عبادت کریں گے‘ اتباع تو نہیں کر سکتے. چنانچہ یہ جو کیا گیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنا دیا گیا یہ بھی درحقیقت انسان کی وہی چالاکی ہے کہ اگر ہم نے انہیں انسان کی سطح پر رکھا پھر تو ان کی پیروی لازم ہو جائے گی. اگر وہ انسان ہی تھے پھر تو ان کا اتباع ضروری ہے‘ پھر تو ان کے نقش قدم پر چلنا لازم ہو گا. لہذا انہیں اٹھاؤ اور اٹھا کر معبودوں کی فہرست میں شامل کر دو. اسے کہتے ہیں ’’دیوانہ بکارِ خویش ہوشیار!‘‘ چنانچہ یہ یوں ہی نہیں ہوا ہے کہ بس نعتیں پڑھ لیں تو حضور کا حق ادا ہو گیا‘ باقی کہاں ہم کہاں حضور کا مقام! ہم سے آپؐ کا اتباع کیسے ممکن ہے؟ یہ کہا اور فارغ ہوئے. ؏ ’’عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ!‘‘