قرآن سے بے اعتنائی کی مختلف وجوہات

اس کے علاوہ متعدد دیگر عوامل ہیں جو قرآن کریم کی اہمیت کو کم کرنے اور اسے مسلمانوں کی نگاہوں سے اوجھل رکھنے کا سبب بنے ہیں اور یہ ایک منظم سازش کے تحت کیا گیا ہے. پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم نے ’’مسلمانوں کے قرآن حکیم سے ُبعد و بیگانگی کے اسباب‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ تحریر کیا تھا جو ماہنامہ میثاق میں شائع بھی ہوا تھا‘جس میں انہوں نے دلائل سے یہ بات ثابت کی تھی کہ یہ معاملہ از خود نہیں ہوا بلکہ قرآن کو منظر سے ہٹانے کی اور اس کی تعلیمات کو مسلمانوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنے کی دانستہ کوششیں کی گئیں. عوام الناس پر ظلم ڈھانے والے اور ان کے حقوق غصب کرکے خود عیاشیاں کرنے والے سلاطین و ملوک اور جاگیردار و سرمایہ دار نہیں چاہتے تھے کہ قرآن کا انقلابی فکر لوگوں کے سامنے آئے . é؏ ’’چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب!‘‘انہیں اندازہ تھا کہ اگر یہ کتاب اور اس کی روشن تعلیمات لوگوں کی نگاہوں میں آ گئیں تو ہم ننگے ہو جائیں گے‘ لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی اور ہمارے استحصالی نظام کے بخیے اُدھڑ جائیں گے. لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اسے بند رکھو‘ اسے صرف حصولِ ثواب کا ذریعہ بنادو ‘گاہے بگاہے ختم قرآن یا ایصالِ ثواب کی محفلیں منعقد کر لی جائیں‘ کچھ کھانے پینے کا سلسلہ ہوجائے‘ اللہ اللہ اور خیر سلا! تو یہ سب کچھ درحقیقت ایک سازش کے تحت ہوا ہے.

اس کے ساتھ ہی ایک معاملہ یہ بھی ہوا کہ جب تاثیر قرآن کی طرف سے توجہ ہٹ گئی اور ایمان کے حصول کا صرف ایک ہی ذریعہ یعنی تاثیر صحبت محمدی ذہنوں میں باقی رہ گیا تو یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ صحبت محمدی تو ہمیں حاصل نہیں ہے‘ اب کیا کیا 
جائے!چنانچہ اس کی تلافی کے لیے یہ مراقبے‘ یہ سارے اوراد و اَشغال اور یہ تپسیائیں اور ریاضتیں‘ غرضیکہ ایک لمبا چوڑا طومار وجود میں لایا گیا. یہ سب کچھ محض اس دلیل پر ہوا کہ جو اصل عامل تھا یعنی تاثیر صحبت نبویؐ وہ تو ہمیں حاصل نہیں ہے‘ لہذا اس کا کوئی نہ کوئی بدل ہونا چاہیے. نتیجہ یہ نکلا کہ یہ اَشغال اور ریاضتیں اور یہ چالیس چالیس برس کی بادیہ پیمائی اور نفس کشی کے یہ مختلف انداز‘ یہ سب چیزیں ہمارے عوام میں اعلیٰ اقدار شمار ہونے لگیں. لوگوں کی دینداری کو اسی پیمانے سے ناپاجانے لگا اور اس چیز نے ہمارے دینی فکر کو اس کے اصل مرکز و محور یعنی قرآن حکیم سے ہٹا دیا. اس کا اصل سبب یہی ہے کہ ہم نے رسول اور کتاب کے مرکب میں سے کتاب کی قوتِ تاثیر کو منہا کر دیا. یہ ہم سب کے لیے ایک لمحہ ٔفکریہ ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے.