اب آیئے اس سلسلے کی تیسری آیت کی طرف جو سورۃ بنی اسرائیل کے آخری حصے میں وارد ہوئی ہے: 

وَ بِالۡحَقِّ اَنۡزَلۡنٰہُ وَ بِالۡحَقِّ نَزَلَ ؕ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿۱۰۵﴾ۘ 
’’(اے نبی !) ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا اور یہ حق کے ساتھ ہی نازل ہوا ہے‘ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر بشیر اور نذیر بنا کر.‘‘ 

یہاں بھی آپ دیکھئے کہ قرآن حکیم اور نبی اکرم دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ ہے.بالخصوص قرآن حکیم کا ذکر جس زوردار اور فیصلہ کن انداز میں یہاں آیا ہے وہ بہت قابل توجہ ہے. قرآن حکیم کے لیے ’’بِالْحَقِّ‘‘ کی تکرار اس کی غیر معمولی اہمیت و عظمت کو ظاہر کر رہی ہے. اس حوالے سے میں آپ کو اسی نکتے کی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اصل فیصلہ کن شے یہ قرآن ہے. چنانچہ یہی وہ شے ہے جس کے لیے بقا اور دوام ہے. نبی اکرم کے بارے میں قرآن حکیم میں ایک مقام پر یہ الفاظ بھی آئے ہیں: اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾ (الزمر) ’’(اے نبی) آپؐ کا بھی انتقال ہو جائے گا اور یہ لوگ بھی مر جائیں گے‘‘. لیکن نوعِ انسانی کا تسلسل تو قیامت تک باقی ہے‘ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اصل شے کون سی شے ہے؟ یہی قرآن‘ جس کو بقا اور دوام حاصل ہے. اصل قوت تسخیر اس قرآن میں ہے. یہ قرآن لوگوں کو possess کرے گا. ان کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے کر ان کے باطن میں انقلاب برپا کر ے گا. جو اس قرآن کی راہنمائی سے فائدہ اٹھائیں ان کے لیے بشارتیں بھی اس قرآن میں موجود ہیں اور جو اس سرچشمہ ٔہدایت کو ردّ کر دیں ان کے لیے تنبیہ اور وارننگ ہے کہ ایک دردناک عذاب ان کامنتظر ہے: 

اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیۡرًا ۙ﴿۹﴾ وَّ اَنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿٪۱۰﴾ (بنی اسرائیل) 

حاصل کلام یہ ہے کہ اصل تاثیر اور قوت تسخیر اس قرآن میں ہے جس کے لیے الفاظ آئے: وَ بِالۡحَقِّ اَنۡزَلۡنٰہُ وَ بِالۡحَقِّ نَزَلَ ؕ اور حضور اکرم کے بارے میں فرمایا: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿۱۰۵﴾ۘ کہ اے نبی بشارت دینا اور انذار کرنا آپ کا کام ہے. گویا اصل قوت اورطاقت اس قرآن میں ہے جو اللہ کا کلام ہے!