قرآن حکیم کی قوت تسخیر کے حوالے سے ایک آخری بات مجھے مزید عرض کرنی ہے.دیکھئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے ان میں اہم ترین عصا کا معجزہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام جب اسے زمین پر ڈالتے تھے تو وہ ایک بڑے سانپ یا اژدھے کی صورت اختیار کر لیتا تھا. قرآن حکیم میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ فرعون نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لیے جادوگروں کو جمع کیا توانہوں نے بھی تقریباً وہی کچھ کر کے دکھا دیا. حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا سانپ بن جاتا تھا. جادوگروں نے جب اپنی رسیاں اور چھڑیاں پھینکیں تو وہ بھی سانپ بن کر جنبش کرنے لگیں.

اُس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وقتی طو رپر خوف طاری ہوگیا اور تھوڑی دیر کے لیے یہ حقیقت ان کے ذہن سے محو ہو گئی کہ ان کی اپنی بغل میں اللہ کا عطا کردہ ایک عظیم معجزہ یعنی عصا موجودہے. اس کی قوتِ تسخیر کا خیال ان کے ذہن سے نکل گیا. تاہم یہ ایک عارضی سی کیفیت تھی جو جادوگروں کے باندھے ہوئے سحر کے زیر اثر ان پر طاری ہوئی. 

اس واقعے سے میرا ذہن اس بات کی طرف منتقل ہوا کہ ہمارے آج کل کے جدید دانشور اور منکرین حدیث بڑے شدومد کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ نبی پر جادو کا اثر نہیں ہوتا‘ حالانکہ بخاری شریف میں حضور اکرم پر جادو کی روایت موجود ہے. ان کا موقف یہ ہے کہ یہ بات عصمت انبیاء کے منافی ہے کہ نبی پر جادو کا کچھ اثر واقع ہو‘ لہٰذا یہ حدیث صحیح نہیں ہو سکتی. اس طرح کے بے بنیاد استدلال قائم کر کے وہ صحیح بخاری ہی نہیں پورے ذخیرۂ احادیث پر سے عوام الناس کا اعتماد ختم کرنے کے درپے ہیں.

یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جو آج کل منکرین حدیث کی جانب سے استعمال ہو رہے ہیں. میں اس کا جواب قرآن سے دیتا ہوں. قرآن حکیم سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جادو کا اثر ہوا. دوسرے لوگوں کی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی وہ چھڑیاں اور رسیاں دوڑتے ہوئے سانپوں ہی کی صورت میں نظر آئیں. یہی تو جادو کا اثر تھا‘ اسی کا نام نظر بندی ہے. سورۃ طٰہٰ میں صراحت موجود ہے : فَاَوۡجَسَ فِیۡ نَفۡسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی ﴿۶۷﴾ ’’پس موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا‘‘. آپ اس صورتِ حال کو اپنے اوپر طاری کر کے سوچیے. دل میں خیال آیا ہو گا کہ یہی تو میرے پاس اصل ہتھیار تھا‘ ان جادوگروں نےبھی وہی کچھ کر کے دکھا دیا جو میں عصا کے حوالے سے پیش کرتا ہوں. اب تو لوگوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ یہ بات آئے گی کہ یہ بڑ ا جادو گرہے اور وہ چھوٹے جادوگر. چنانچہ ان پر خوف طاری ہوا. قُلۡنَا لَا تَخَفۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰی ﴿۶۸﴾ ’’ہم نے فرمایا :اے موسیٰؑ! مت ڈرو‘ یقینا تم ہی سربلند ہو گے‘‘.یعنی کامیابی تمہارے قدم چومے گی. وَ اَلۡقِ مَا فِیۡ یَمِیۡنِکَ تَلۡقَفۡ مَا صَنَعُوۡا ؕ (آیت ۶۹’’اور ذرا زمین پر ڈالو تو سہی اس چیز کو جو تمہارے داہنے ہاتھ میں ہے‘ یہ (عصا )ان سب کو نگل جائے گا (اور یہ سوانگ جو انہوں نے رچایا ہے اس کی قلعی کھل جائے گی)‘‘. یہی اسلوب اقبال نے بھی مستعار لیا ہے اور اپنے اس شعر میں یہی پیغام اُمت کو پہنچایا ہے ؎

اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ
در بغل داری کتابِِ زندۂ! 

کہ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بغل میں عصا موجود تھا‘ لیکن جادوگروں کی رسیوں اور چھڑیوں سے وقتی طور پر جو ایک منظر سامنے آیا اس سے ان پر خوف طاری ہوگیا‘ آج بعینہ وہی حال اُمت مسلمہ کا ہے کہ اس کے پاس قرآن مجید کی شکل میں سب سے بڑا ’’ایٹم بم‘‘ موجود ہے ‘ لیکن انہیں شعور ہی نہیں کہ اللہ کا کتنا عظیم معجزہ ان کی بغل میں موجود ہے‘ جس کی قوت ِتسخیر کے سامنے کوئی شے نہیں ٹھہر سکتی! حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارے تمام مسائل کا حل اگر کسی ایک شے میں ہے تو وہ اللہ کی کتاب ہے.

آپ حضرات یہ حدیث متعدد مرتبہ سن چکے ہوں گے جس کے راوی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ (۱کہ اللہ تعالیٰ اسی کتاب کی بدولت بہت سی اقوام کو بلندی عطا کرے گا اور اس کے ترک کرنے کی پاداش میں بہت سی قوموں کو زوال سے دوچار کرے گا. یہ وہی بات ہے جو سورۃ بنی اسرائیل میں ان الفاظ میں وارد ہوئی : وَ بِالۡحَقِّ اَنۡزَلۡنٰہُ وَ بِالۡحَقِّ نَزَلَ ؕ (آیت ۱۰۵اور سورۃ الطارق میں بایں الفاظ بیان ہوئی: اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ ﴿ۙ۱۳﴾وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ ﴿ؕ۱۴﴾ کہ یہ تو قولِ فیصل ہے‘فیصلہ کن کلام ہے‘ کوئی شاعرانہ تک بندی نہیں ہے. یہ ہے درحقیقت قرآن کی تاثیر اور قوت تسخیر ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم قرآن حکیم پر اعتماد نہیں کرتے. قرآن مجید کی عظمت سے اگر ہم حقیقتاً واقف ہو جائیں اور اس کے اندرجو قوتِ تسخیرپنہاں ہے اس کا ہمیں کسی درجے میں اندازہ ہو جائے تو ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں.