اسی حوالے سے میرا ذہن منتقل ہوا کہ چند سال قبل میں نے جہاد بالقرآن کے موضوع 

(۱) صحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا‘ باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ وفضل من تعلم حکمۃ. وسنن الدارمی‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب ان اللّٰہ یرفع بھٰذا القرآن اقواما ویضع بہ آخرین. پر دو تقریریں کی تھیں.سورۃ الفرقان میں نبی اکرم کو جہاد بالقرآن کا حکم بایں الفاظ دیا گیا ہے : فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾ کہ اے نبی ! ان کافروںکی باتوں پر آپ توجہ نہ دیجیے‘ ان کی پیروی کا خیال دل میں نہ لایئے اور ان کے ساتھ جہاد کرتے رہیے اس قرآن کے ذریعے سے بڑا جہاد!اپنی توانائیاں اور اپنی قوتیں اس قرآن کے افشا اور اس کے ابلاغ پر لگا دیجیے‘ کھپا دیجیے‘ لگے رہیے اسی کام میں.یہی درحقیقت آپ کی طاقت کا اصل راز ہے‘ آپ کی کامیابی کی اصل ضمانت یہی قرآن مجید ہے. اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ 

جہاد بالقرآن ہی کے موضوع پر بعد میں‘ میں نے ایک اور تقریر کی تھی اور اس میں جہاد بالقرآن کے پانچ محاذ معین کیے تھے. اگر آپ اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہمار ے معاشرے میں ایک محاذ تو جدید ملحدانہ نظریات کا ہے. اس زہر کا توڑ اسی قرآن مجید میں ہے. پھر ہمارے عوام کی ایک عظیم اکثریت مشرکانہ اوہام اور عقائد کاشکار ہے. اس کا توڑ بھی یہی قرآن ہے‘ بلکہ اس گمراہی کا توڑ تو اس میں زیادہ نمایاں اور جلی انداز میں ہے. اس لیے کہ جب قرآن نازل ہوا تو وہاں یہی گمراہی سب سے زیادہ تھی‘ لہذا اس کی نفی اور تردید بھی سب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ ہوئی. باقی جہاں تک جدید باطل نظریات اور ملحدانہ افکار و خیالات کا تعلق ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کے توڑ کےلیے تو قرآن حکیم میں غوطہ زنی کرنی پڑے گی‘ کچھ گہرائی میں اتر کر حکمت و معرفت کے موتی اور ہیرے نکالنے ہوں گے. لیکن قدیم جاہلیت کا توڑ تو اس میں گویا بالکل سطح پر (on the surface) موجود ہے.

ہمارا تیسرا سب سے بڑا مسئلہ تفرقہ اور فرقہ واریت ہے. اس تفرقے کا ایک ہی علاج ہے : 
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ (آل عمران:۱۰۳جتنا اس قرآن کے قریب آئیں گے اتنی ہی باہمی ہم آہنگی ہوگی. یوں بھی سوچا جائے کہ انسان چونکہ حیوانِ ناطق ہے اور عقل رکھنے والا حیوان ہے‘ لہذا انسانوں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی اگر ہو گی تو باہم اتحاد بھی ہو گا‘ ورنہ آپ اتحاد کے موضوع پر وعظ کہتے رہیے‘ اتحاد کے لیکچر دیتے رہیے‘ اس پر مضامین لکھ کر چھاپتے رہیے‘ اتحاد نہیں ہو سکتا. باہم ذہنی اور فکری ہم آہنگی اگر پیدا ہو گی تو بامعنی اور پائیدار اتحاد جنم لے گا اور اس کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ اللہ کی رسی یعنی قرآن کو مل جل کر مضبوطی سے تھام لیا جائے ؎

ما ہمہ خاک و دلِ آگاہ اوست 
اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست!

ہمارا ایک مرض اور بھی ہے ‘ اور وہ ہے بے یقینی. یعنی باطل نظریات کا بھی اگرچہ ذہن پر تسلط نہیں ہے‘ کوئی گمراہ کن اوہام بھی نہیں ہیں‘ لیکن جسے یقین کہتے ہیں وہ شے موجود نہیں ہے‘ اور یقین کی پونجی اگر پاس نہ ہو تو عمل کا کیا سوال؟ قرآن حکیم میں کچھ لوگوں کا قول نقل ہوا ہے : 
اِنۡ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحۡنُ بِمُسۡتَیۡقِنِیۡنَ ﴿۳۲﴾ (الجاثیۃ) کہ اے محمد( ) جو کچھ تم کہہ رہے ہو لگتا ہے کہ ٹھیک کہہ رہے ہو‘بات وزنی معلوم ہوتی ہے لیکن یقین نہیں آتا‘ اس پر دل نہیں ٹھکتا!اور ظاہر بات ہے کہ عمل تو یقین کے تابع ہے ‘ یقین بدلے گا تو عمل بدلے گا. بقول اقبال ؎

یقیں پیدا کر اے ناداں ‘ یقیں سے ہاتھ آتی ہے 
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری!

جان لیجیے کہ اس یقین کا سرچشمہ اور منبع بھی یہی قرآن ہے اور یہی ہے کہ جو ’’شِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْر‘‘ ہے. یعنی باطنی اور روحانی بیماریوں کا مؤثر اور تیربهدف علاج یہی قرآن حکیم ہے. یہ وہ باتیں ہیں جن پر میں نے ’’جہادبالقرآن کے پانچ محاذ‘‘ کے موضوع پر اپنے خطابات میں تفصیل سے گفتگو کی ہے. میری یہ دونوں تقریریں اب کتابی صورت میں شائع ہوتی ہیں.
نبی اکرم نے فریضۂ رسالت کی ادائیگی اور غلبہ و اقامت دین کے مشن کے لیے جو بے مثال جدوجہد کی اسے دو عنوانات کے تحت تقسیم کیا جا سکتا ہے. آپؐ نے مسلسل بارہ برس مکہ مکرمہ میں قرآن کے ساتھ جہاد کیا اور پھر دس برس مدینہ منورہ میں یہ جہاد تلوار کے ساتھ ہوا!یہ دو ہی تو جہاد ہیں جو محمد عربی کے جہادِ زندگانی میں 
سب سے نمایاں ہیں. ایک کا عنوان جہاد بالقرآن ہے جو بارہ یا تیرہ برس مکہ میں ہوا کہ جس میں شمشیر قرآنی کے سوا اور کوئی دوسری شمشیر نبی اکرم اور مسلمانوں کے ہاتھ میں نظر نہیں آتی‘ اور دوسرا جہاد بالسیف ہے‘ جس کا آغاز ہجرت کے بعد ہوا اور جو آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے آخری سانس تک جاری رہا. یہ بات نوٹ کیجیے کہ جہاد بالسیف کے لیے جو طاقت درکار ہوتی ہے ‘ فدائین کی جو جمعیت اور سرفروشوں کی جو جماعت درکار ہوتی ہے‘ وہ کہاں سے آئے گی؟ یہ سرفروش جہاد بالقرآن کے نتیجے میں فراہم ہوں گے. قرآن حکیم اگر انہیں مسخر کر لے اور ان کے اندر سرایت کر جائے تو یہی لوگ ہیں جو باطل کے مقابلے میں بنیانِ مرصوص ثابت ہوں گے اور باطل نظام کو الٹ کر رکھ دیں گے ؎

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود! 

اس اعتبار سے جہاد بالقرآن گویا جہاد بالسیف سے اہم تر ہے. اس لیے کہ پہلی منزل اہم تر ہوتی ہے. پہلی منزل موجود ہوگی تو اس کے اوپر دوسری منزل کی تعمیر ممکن ہو گی. جہاد بالقرآن ہو گا تو جہاد بالسیف کا امکان ہو گا!