بھارت کے خلاف ہمارا اصل ہتھیار شمشیر قرآنی

اس ضمن میں ایک بات میں مزید کہنا چاہتا ہوں . میں نے داخلی طور پر تو پانچ محاذ گنوا دیے جن کے لیے قرآن ہمارا سب سے بڑا اور مؤثر ہتھیار ہے‘ خارجی اعتبار سے ہمارے لیے اہم ترین مسئلہ بھارت کا ہے. آج سے دو یا تین سال قبل میں نے مرکزی انجمن کے سالانہ اجلاس عام ہی میں اس ایشو پر ایک تقریر کی تھی‘ میں نے عرض کیا تھا کہ بھارت کے مقابلے میں بھی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار قرآن حکیم ہے. اس لیے کہ فکر اور نظریے کے میدان میں بھارت کے پاس کچھ نہیں ہے. ہندو قوم کے پاس اپنا کوئی جاندار نظریہ نہیں ہے‘ نہ مذہب کے میدان میں اور نہ فلسفے کے میدان میں. مذہب کے نام پر ان کے ہاں جو ایک تحریک چل رہی ہے وہ محض چند سیاسی مقاصد کے لیے چلائی گئی ہے‘ ورنہ دراصل ہندو ازم صرف ایک کلچر ہے‘ کچھ رسومات ہیں اور کچھ ایسی سماجیتقریبات ہیں جن کے حوالے سے وہ کچھ جشن منالیتے ہیں‘ باقی کوئی شے ان کے پاس نہیں ہے.

یہی وجہ ہے کہ وہ پورے طور پر مغرب کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں‘ فلسفہ و فکر بھی انہوں نے مغرب سے مستعار لیا ہے اور ان کے تہذیب و تمدن پر بھی مغرب کا رنگ غالب ہے. چنانچہ ان کا نظامِ حکومت ہو یا تصورِ قانون سارے کا سارا اور جوں کا توں مغرب سے درآمد شدہ ہے. یہی سبب تھا کہ متحدہ ہندوستان میں دُنیوی اعتبار سے ہندو ہم سے آگے نکل گیا تھا. اس لیے کہ اس کے باوجود کہ مسلمانوں میں بہت سے لوگ مغربی رو کے اندر بہہ گئے تھے لیکن ان میں ایک بڑا مؤثر طبقہ ایسا بھی تھا جن کے ذہنوں میں مغربی تہذیب کے خلاف ایک ردِّعمل پروان چڑھا اور انہوں نے اس تہذیب کو ذہناً اور عملاً قبول نہیں کیا. نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری قوتیں منقسم ہو گئیں. علماء دیوبند ڈٹ گئے کہ نہ انگریزی پڑھیں گے نہ انگریزی تہذیب اختیار کریں گے. انہوں نے انگریز‘ انگریزی تعلیم اور انگریزی تہذیب سب سے لاتعلقی اور بیزاری کا اعلان کیا. گویا مکمل بائیکاٹ کی صورت بن گئی. ہندو کے لیے ظاہر بات ہے کہ ایسی کوئی رکاوٹ موجود نہیں تھی. اس کا کوئی تمدن تھانہ تہذیب‘ ان کے ہاں اپنے کوئی نظریات تھے نہ افکار‘لہذا انہوں نے بلاجھجک اور بلاتوقف انگریز کی تہذیب‘ اس کے تمدن‘ اس کی زبان‘ ہر شے کواختیار کرلیا. انہیں اس کا اضافی فائدہ یہ ہوا کہ انہیں انگریز کا قرب بھی حاصل ہو گیا. ظاہر بات ہے کہ حکمرانوں کا قرب حاصل کرنے کا اس سے بہتر راستہ کوئی نہیں کہ آپ انہی کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ دیں. جبکہ مسلمانوں کا معاملہ اس سے مختلف تھا.

بہرحال یہ تو ایک ماضی کا معاملہ تھا‘ مجھے اصلاً مستقبل کے حوالے سے بات کرنی ہے. سب جانتے ہیں کہ بحیثیت ملک پاکستان کا اصل مقابلہ بھارت کے ساتھ ہے‘ بھارت وہ ملک ہے جس کے ساتھ ہماری پیدائشی دشمنی ہے. مادی قوت کے اعتبار سے اگرچہ ہم بھارت سے بہت پیچھے ہیں ‘لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کے خلاف نظریاتی طو رپر ہمارے پاس بہت بڑی قوت موجود ہے. اس فکر کو اگر ہم پھیلا سکیں تو اس شمشیر قرآنی سے ہم دشمن کو گھائل کرسکتے ہیں. اور یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے فضل و کرم کی 
ہے کہ ہمارے اور ہندوستانی قوم کے درمیان زبان کی کوئی لمبی چوڑی خلیج حائل نہیں ہے.

حالانکہ اگر ہم مغرب کی طرف چلے جائیں‘ ایران یا عرب ممالک میں جا کر اپنی بات پہنچانا چاہیں تو وہاں اردو زبان ابلاغ کاذریعہ نہیں بنتی. لیکن یہ جو ایک بہت بڑا ملک ہے‘ پوری نوع انسانی کی ۵/۱ تعداد جہاں آباد ہے‘ آج بھی اس ملک کے کونے کونے میں اردو زبان سمجھی اور بولی جاتی ہے. خواہ وہ تامل ناڈو کا علاقہ ہو خواہ ملیالم کا‘ اور خواہ بنگال کا خطہ ہو‘ ہر جگہ اردو سمجھنے والے موجود ہیں. اس بات کو میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہی مظاہر میں سے شمار کرتا ہوں جن کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ اس برعظیم پاک و ہند سے اللہ تعالیٰ کو کوئی خاص خدمت لینی ہے‘ اور مستقبل کی جو بھی اس کی منصوبہ بندی ہے اس میں کوئی نہ کوئی اہم مقام اور اہم رول اس خطے کا ضرور ہے کہ یہیں شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوئے‘ اسی خطے سے اس عظیم قرآنی تحریک کا آغاز ہوا جو تین سو برس پرانی تحریک ہے‘ کوئی آج کی تحریک نہیں ہے.

اس کا آغاز تو شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فارسی ترجمے اور ان کی ’’الفوز الکبیر‘‘ سے ہوا تھا. پھر ان کے چاروں بیٹوں( رحمہم اللہ) کے تراجم قرآن اور تفسیروں سے یہ تحریک آگے بڑھی. اُس وقت سے جو سلسلہ شروع ہوا تو درحقیقت یہی ہے کہ جو بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچا کہ آج ہم بھی اس تحریک میں بقدرہمت اپنا حصہ ادا کر رہے ہیں اور خدمت قرآنی کے اس کام میں اپنی بساط کے مطابق شریک ِعمل ہیں. اللہ تعالیٰ اسے شرفِ قبول فرمائے. بہرکیف اردو زبان کو ذریعہ ابلاغ بنا کر اگر قرآن کے فکر و فلسفہ اور قرآن کی حکمت و ہدایت کو ہندوستان میں بسنے والے لوگوں میں بھرپور طریقے سے پیش کیا جا سکے تو اس سے بڑااور کوئی ہتھیار نہیں !شاہ ولی اللہ ؒ ہی نے ’’تفہیماتِ الٰہیہ‘‘ میں یہ بات لکھی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ ہندوستان کے اونچی ذات کے ہندوؤں کی اکثریت اسلام قبول کر لے گی. یہ ایک پیشین گوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے حق میں تمام شواہد موجود ہیں.

بدقسمتی سے ہندوستان کے ساتھ آج تک ہماری قومی جنگ جس نوعیت کی رہی ہے اس میں مادی نقطۂ نظر اور جذباتیت پسندی کو زیادہ دخل رہا ہے‘ چنانچہ اس کے نتیجے میں ہم 
خود ہندو قوم اور قرآن کے درمیان اپنے وجود سے ایک آڑ اور حجاب بن گئے ہیں. وہ قرآن مجید کی ہدایت کی طرف رجوع کیسے کریں جبکہ وہ ایک دشمن قوم کی کتاب ہے. یہ وہ حجاب اور barrier ہے جس کی وجہ سے نوع انسانی کی ایک بہت بڑی تعداد قرآن مجید سے محجوب ہے. اگر ہم کسی طریقے سے اس بیریرکو ختم کر کے قرآن کے پیغام اور اس میں مضمر ہدایت کو بیک وقت اعلیٰ ترین علمی سطح پر بھی اور عوام الناس کی سطح پر بھی پیش کر سکیں تو واقعہ یہ ہے کہ ہماری سب سے بڑی قوتِ تسخیر یہی ہے.

بدقسمتی یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہم غافل ہیں اور مغربی افکار و نظریات اور تہذیب و تمدن کی ظاہری چمک دمک نے خود ہماری آنکھوں کو خیرہ کر رکھا ہے. جیسے عارضی طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام جادوگروں کی ڈالی ہوئی رسیوں اور چھڑیوں کو سانپوں کی شکل میں دیکھ کر ڈر گئے تھے‘ آج ہم بھی اہل مغرب کی ڈالی ہوئی ان رسیوں اور چھڑیوں کے بنے ہوئے سانپوں سے مرعوب اور خوف زدہ ہیں. یہ رسیاں چاہے افکار اور نظریات کی ہوں‘ خواہ تہذیب و تمدن کی ہوں اور خواہ سائنسی ترقی کے روپ میں ہمیں مرعوب کر رہی ہوں‘ سب انسانی ذہن کی تراشیدہ ہیں. اس سے کہیں بڑھ کر وہ قوتِ تسخیر ہے جو قرآن حکیم کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے. الحمد للہ ہماری یہ تحریک قرآنی جو انجمن خدام القرآن کے نام سے برسرعمل ہے‘ اسی قرآن کےپیغام اور اس کی ہدایت کو عام کرنے کے لیے کوشاں ہے. اور فی الاصل‘ جیساکہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا‘ میری یہ تقریر اللہ تعالیٰ کی جناب میں ہدیۂ تشکر پیش کرنے کے لیے ہے کہ اس انجمن کو قائم ہوئے بیس برس ہو گئے‘ اس دوران جو کام اب تک ہم سے ہوا اسی کے فضل سے ہوا. تو جہاں ہمیں اپنے قلب کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا چاہیے وہاں ہمیں اس کام کی اہمیت کا صحیح صحیح شعور بھی ہونا چاہیے اور اس حوالے سے قرآن مجید کی قوت تسخیر پر اعتما داور توکل میں مزید پختگی آنی چاہیے کہ اصل شے یہ ہے‘ اس پر محنت کرو‘ اسے عام کرنے اور پھیلانے کے لیے جدوجہد کرو: وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ﴿ؕ۲۶﴾ (المطففین) چاہیے کہ اربابِ ہمت و عزیمت اپنی عزیمتوں اور ہمتوں کے اظہار کے لیے اس میدان کا انتخاب کریں اور اپنی سعی وجہد کا مرکز و محور قرآن حکیم کو بنائیں.