اب میں وہ چند عملی باتیں آپ سے عرض کروں گا جو میں نے انجمن کے سالانہ اجلاس میں بھی کہی تھیں پہلی بات یہ کہ اس انجمن میں آپ کی شمولیت (participation) عملاً بڑھنی چاہیے. بطور خاص آپ سے یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ‘ جیسا کہ میں نے دورانِ تقریر بھی عرض کیا‘ بہرحال اب میں تو آخرت کی دہلیز پر کھڑاہوں. بحمداللہ بیس برس میں نے اس ادارے کو چلایا ہے اور یہ سب کچھ اسی کے فضل و کرم سے ہوا. اس میں عافیت یہ بھی رہی ہے کہ صدر مؤسس ہونے کے ناطے اس ادارے میں مجھے خصوصی اختیارات حاصل تھے‘ میرے پاس ویٹو کا حق تھااور اب بھی ہے. لہذا کسی بڑے ہنگامے کے کھڑا ہونے یا بحران کے پیدا ہونے کا یہاں کوئی امکان ہی نہیں تھا.لیکن آئندہ اس کا امکان یقینا ہو گا‘ اس لیے کہ میرے بغیر کسی صدر کو ویٹوپاور حاصل نہیں ہوگی. آئندہ کا نظام طے شدہ دستور کے مطابق چلے گا. لہذا جن حضرات کو بھی اس کام اور اس قرآنی فکر سے دلچسپی ہے اور جو چاہتے ہیں کہ پچھلے بیس برس میں جو کام ہوا ہے وہ کہیں غلط رخ پر نہ پڑ جائے یا غلط ہاتھوں میں نہ چلا جائے توانہیں چاہیے کہ اس انجمن کے ساتھ اپنی وابستگی کو فعال بنائیں. اپنے اوقات کا کچھ حصہ اس کے لیے ضرور نکالیں اور یہ خیال ذہن میں نہ لائیں کہ یہ کام تو خود بخود چل رہا ہے ہماری اس میں کیا ضرورت ہے! جن حضرات کے ذہنوںمیں بھی ایسا کوئی خیال تھا انہیں اس خیال کو اپنے ذہن سے نکال دینا چاہیے اور اس کام سے دلچسپی رکھنے والے تمام حضرات کو چاہیے کہ اس کام میں عملی شمولیت کو بڑھانے کی طرف توجہ دیں. کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کام کے لیے قبول فرمائے!

دوسری بات اور یہ بات مجھے خاص طور پر انجمن کے پرانے وابستگان سے کہنی ہے کہ ان میں وہ بھی ہیں کہ جو میرے دروسِ قرآن اور تقاریر کی مجالس میں پہلی صفوں میں بیٹھے نظر آتے ہیں ‘لیکن مجال ہے کہ انہوں نے تنظیم اسلامی یا تحریک خلافت کی جانب ایک قدم بھی آگے بڑھایا ہو. ان حضرات کو اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کرنی 
چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ یہ سارا کام کیا محض مشغلے کے طور پر ہو رہا ہے؟ یہ ہرگز کوئی فرقہ (cult) نہیں ہے!یہ کوئی ہندوؤں کے طریقے پر رشی منی کا کوئی سلسلہ نہیں ہے!! یہ ایک اہم دینی کام ہے‘ یہ ایک انقلابی مشن ہے. اور کوئی بھی ایسا کام کہ جس میں انقلاب کے بیج موجود ہوں لیکن وہ پھلیں پھولیں نہیں‘ برگ و بار نہ لائیں تو وہ کام اپنی معنویت کھو دے گا. محض پڑھنے پڑھانے تک خود کو محدود رکھنا اور اس کے عملی تقاضوں سے گریز کرنا دینی اعتبار سے نفع بخش نہیں ہے. الحمد للہ کہ میری زندگی میں صرف پڑھناپڑھانانہیں رہا بلکہ میں نے اللہ کے فضل و کرم سے آگے قدم بڑھایا اور اسی اعتبار سے اس کام میں معنویت برقرار رہی. تو جو لوگ بھی اس کام میں ذہنی دلچسپی رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ آگے بڑھیں‘تنظیم اور تحریک کی طرف عملاً پیش قدمی کریں اور اس میں شمولیت اختیار کریں. 

تیسری بات جو میں خاص طو رپر نوٹ کرارہا ہوں وہ یہ ہے کہ دعوت رجوع الی القرآن کے ایک سالہ کورس کی میرے نزدیک خصوصی اہمیت ہے. میں اراکین انجمن اور خصوصی طور پر اس آبادی کے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں اس کورس میں شمولیت کرنی چاہیے.ہمارا یہ کورس چار چار ماہ کے دو سمسٹرز پر مشتمل ہے. چنانچہ جو حضرات پورا سال فارغ نہ کر سکتے ہوں وہ چار مہینے تو ضرور نکالیں اور پہلا سمسٹر کر لیں‘ دوسرا سمسٹر اگر کچھ وقفے کے بعد بھی ہوسکے تو کوئی بات نہیں ہے. لیکن بہرحال اس کے لیے ایک سال کا ارادہ ضرور کرلیں ہم میں سے ہر شخص کو‘ خاص طو ر پر پڑھے لکھے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ہمیں اللہ کے حضور اس بات کی جواب دہی کرنا ہو گی کہ ہم نے سب کچھ پڑھا‘ لیکن اتنی عربی نہ سیکھی کہ اس کے کلام کو براہِ راست سمجھ سکتے. اس کوتاہی کا ہمارے پاس کیا جواز ہے؟

ہم نے انگریزی اتنی پڑھ لی کہ انگریزوں کو پڑھا سکتے ہیں‘ مختلف فنون حاصل کر لیے‘ سائنسی علوم میں بڑی سے بڑی ڈگریاں حاصل کر لیں‘ لیکن نہیں پڑھی تو عربی نہیں پڑھی. ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے اس سوال کا کیا جواب ہو گا کہ تم نے میرے کلام کی کیا قدر کی؟ خود میری کیا قدر کی؟؟ قرآن حکیم میں مشرکین کے بارے میں فرمایا گیاہے: مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ (الانعام:۹۱کہ انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسی کہ اس کی قدر کرنی چاہیے. ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ ہم کہیں ان الفاظ کا مصداق نہ ٹھہریں. چنانچہ اس ضمن میں جو بھی کمی رہ گئی ہے ہمیں اس کی تلافی کرنی چاہیے. اگر کسی کے والدین کی کوتاہی ہو اور وہ اللہ کے ہاں پہنچ گئے ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کی تلافی وہ اب بھی کر سکتا ہے. آپ اب اس کام کے لیے وقت فارغ کریں اور اللہ کے حضور یہ دعا کریں کہ اے اللہ‘ میں اپنے والدین کی کوتاہی کی اب تلافی کر رہا ہوں‘ میرے والدین کو بخش دے‘ انہیں معاف فرما دے. اے اللہ‘ میں اب اس کے لیے وقت نکال رہا ہوں ‘ میری اس جدوجہد کو اور میرے اس وقت کو جو میں صرف کر رہا ہوں میرے والدین کی طرف سے کفارے کے طور پر قبول کر لے! میں بتکرار و اعادہ توجہ دلا رہا ہوں کہ یہ کام کرنے کا ہے‘ اس میں دیر نہ کیجیے‘ تاخیر نہ کیجیے!! 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المُسلمین والمُسلمات