اب آیئے سب سے پہلی بات کی طرف .ختم نبوت کے یہ دو مفہوم کیا ہیں‘ اس کو آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں. ہماری اپنی زبان اردو میں بھی ختم کے دو مفہوم ہیں. مثلاً ’’پیسے ختم ہو گئے‘‘ یعنی پہلے پیسے تھے‘ اب نہیں رہے. کسی شے کا پہلے وجود تھا‘ اب نہیں ہے. یا پنجابی میں کوئی کہے کہ ’’دانے مک گئے‘‘ یعنی پہلے گندم یا کوئی اور جنس تھی‘ اب نہیں ہے.یہ ختم نبوت کا ایک مفہوم ہے کہ وہ نبوت جو حضرت آدم ں سے چلی آ رہی تھی (اس لیے کہ پہلے نبی حضرت آدمؑ تھے) وہ ختم ہو گئی. محمد رسول اللہ کے بعد اب کوئی نبی نہیں. لیکن ختم کاایک دوسرا مفہوم بھی ہے. آپ کو معلوم ہے سکول کا طالب علم کہتا ہے: ’’میں نے اپنا ہوم ورک ختم کر لیا ‘‘. اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اپنا کام مکمل کر لیا‘پورا کر لیا. ختم کا یہ دوسرا مفہوم ہے جس کی رو سے نبوت اور رسالت حضور پر کامل ہوئی.

ذرا نوٹ کیجئے‘ پہلا مفہوم اپنی جگہ پر ایک واقعہ ہے‘ حقیقت ہے‘ لیکن اس میں فضیلت کی کوئی بنیاد نہیں ہے. ایک زنجیر چلی آ رہی تھی‘ آتے آتے ختم ہو گئی‘ تو اس کی آخری کڑی میں فضیلت کا کیا مفہوم ہوا؟ اس اعتبار سے حضور کی عظمت کا کوئی پہلو سامنے نہیں آتا. بلکہ آپ ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ نبوت رحمت ہے‘ نبوت تو نوعِ 
انسانی کی ہدایت کا ایک سلسلہ تھا. چنانچہ جہاں سے وہ شروع ہوئی اس کی فضیلت زیادہ ہونی چاہیے بنسبت اس کے کہ جہاں آکر وہ ختم ہو گئی. میری بات کو دوبارہ نوٹ کیجئے کہ اپنی جگہ پر یہ واقعہ ہے‘ لیکن اس اعتبار سے حضور کی عظمت کا کوئی انکشاف نہیں ہوتا. حضور کی عظمت اور فضیلت کا پہلو تو اس اعتبار سے ہے کہ نبوت آپٖؐ پر کامل ہو گئی‘ رسالت کی آپؐ پر تکمیل ہو گئی.

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں قرآن مجید اور حدیث شریف میں حضور کے ضمن میں خاص طور پر تکمیل‘ اِکمال‘ اِتمام اور تتمیم جیسے الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں. 
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ ’’آج کے دن ہم نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا‘‘. وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ ’’اور تم پر اپنی نعمت کا اِتمام فرما دیا‘‘. وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ (المائدۃ:۳’’اور اب (قیامت تک کے لیے) اسلام کو تمہارے لیے بطورِ دین پسند کر لیا‘‘. اسی طرح آپ کو معلوم ہے کہ قرآن حکیم میں دو مرتبہ یہ الفاظ آئے ہیں : وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸﴾ (الصف) ’’اللہ اپنے نور کا اِتمام فرما کر رہے گا چاہے یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘ .اور وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۳۲﴾ (التوبہ) ’’اللہ کو ہرگز یہ منظور نہیں مگر یہ کہ وہ اپنے نور کا اِتمام فرما کر رہے گا ‘ چاہے یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘. اسی طرح حدیث میں آتا ہے: اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ ’’مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں اخلاق کے جو بلند مقامات ہیں ان کا اِتمام کر دوں‘‘. تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ اکمال‘ تکمیل‘ اتمام اور تتمیم ‘ یہ الفاظ کثرت کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ کی نبوت و رسالت اور آپؐ :کی بعثت کے ضمن میں آ رہے ہیں. آنحضور کی اصل فضیلت اسی اعتبار سے ہے اور آپؐ :کی نبوت کی عظمت کا انکشاف اسی پہلوسے ہوتا ہے. یوں سمجھئے کہ ایسا نہیں ہے کہ ایک فصیل جس کی اونچائی برابر تھی چلی آ رہی تھی اور ایک جگہ آ کر ختم ہو گئی. یہ ختم نبوت کا پہلا مفہوم ہے. دوسرا معاملہ یہ ہے کہ ایک چیز تدریجاً ترقی کرتے کرتے اپنے نقطہ ٔ :عروج کو پہنچی اور ختم ہو گئی. ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے.

ختم نبوت کا جو پہلا مفہوم ہے اس کی قانونی اہمیت بہت زیادہ ہے. اس لیے کہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حضور کے بعد اگر کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو وہ کذاب‘ دجال ‘جھوٹا اور کافر ہے ‘اور جس کسی نے بھی اس کی تصدیق کی‘ اس کو مان لیا وہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج اور مرتد شمار ہو گا. یہ اس کی قانونی اہمیت ہے. کوئی شخص مسلمان رہا یا نہیں رہا‘ یہ تو بڑا اہم مسئلہ ہے جس کی حیثیت قانونی ہے. اگر کسی نے حضور کے بعد کسی نبی کی نبوت کا اقرار کر لیا یا خود اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تو وہ مرتد ہے‘ واجب القتل ہے‘ اس کی بیوی کا اس سے نکاح ختم ہو گیا.یہی وجہ ہے کہ ختم نبوت کے اس مفہوم پر علماء کرام نے بڑی تفصیل سے گفتگوئیں اور تقاریر کیں‘ خطبات دیئے‘ اور تصانیف تحریر کیں. ا س موضوع پر مولانا سید انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ علیہ کی کتاب میرے نزدیک حرف آخر ہے‘ جس پر کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا. 

ختم نبوت کا دوسرا مفہوم کہ حضور پر نبوت اور رسالت کی تکمیل ہوئی ہے‘ چونکہ اس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں تھی لہذا اس پر کماحقہ توجہ نہیں ہوئی. اس پہلو کو نمایاں کرنا درحقیقت میری آج کی گفتگو کا اصل موضوع ہے. آپ دیکھتے ہیں کہ علماء کرام کی تقاریر میں ختم نبوت پر گفتگو ہوتی ہے تو قرآن مجید کی یہی ایک آیت پیش کی جاتی ہے: 
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ (الاحزاب:۴۰’’(اے مسلمانو! حضرت) محمد ( ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں‘ مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کی مہر ہیں‘‘. حضرت زید بن حارثہ ؓ کو اگر حضورنے منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا تو واضح کیا جا رہا ہے کہ منہ بولا بیٹا کوئی حقیقت نہیں رکھتا‘ورنہ آپؐ کسی مرد کے والد نہیں ہیں آپ کو اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں بیٹے دیے بھی لیکن وہ جلد ہی فوت ہو گئے. آپ :کی عمر کے آخری دَور میں بھی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضرت ابراہیم کی ولادت ہوئی ‘ وہ بھی بچپن ہی میں فوت ہو گئے لیکن آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کی مہر ہیں. یعنی مہر لگ گئی اور یہ راستہ بند ہو گیا . یہاں سے اب کسی اور نبوت کے اِجرا کا سوال پیدا نہیں ہوتا. 
غور کیجئے کہ یہ آیت کس سیاق و سباق میں آئی ہے. عرب میں ہمیشہ سے ایک رواج چلا آ رہا تھا اور یہ ان کی تہذیب و ثقافت کا جزوِ لازم تھا کہ کسی کااگر منہ بولا بیٹا ہے اور اس کا انتقال ہو گیا یا اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو منہ بولے بیٹے کی بیوہ یا مطلقہ بیوی سے وہ شخص کبھی نکاح نہیں کر سکتا. وہ گویا حرامِ مطلق ہے. شریعت میں یہ حکم نہیں ہے. شریعت میں صلبی بیٹے کی بیوی حرامِ مطلق ہے. وہ بیوہ ہو جائے یا مطلقہ ہو جائے تو باپ اس سے شادی نہیں کر سکتا. وہ محرماتِ ابدیہ میں سے ہے ‘لیکن منہ بولے بیٹے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں. ا س رسم کو توڑنے کے لیے اگر خود حضور اس پر عمل نہ کرتے تو کسی طرح بھی یہ صورت ختم نہیں ہو سکتی تھی. یہی وجہ ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو جب زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ نے طلاق دے دی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت زینبؓ کا حضور  کے ساتھ آسمان پر نکاح کر دیا. زمین پر یہ نکاح بعد میں ہوا ہے یہاں فرمایا کہ اب اگر حضرت محمد رسول اللہ یہ کام (یعنی اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح) نہ کرتیتواس غلط رسم کی اصلاح کی کوئی شکل نہ ہوتی‘اس لیے کہ آپؐ کے بعد تو کوئی نبی آنے والا ہے نہیں. چنانچہ ختم نبوت کا جو قانونی مفہوم ہے اس کے اعتبار سے یہ متعلقہ آیت ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں‘ لیکن میں نے جو دوسری آیات تلاوت کی ہیں‘ وہ ختم نبوت کے دوسرے مفہوم کے اعتبار سے اہم ہیں. یعنی آپ کی فضیلت اور آپؐ :کی عظمت والا مفہوم کہ آپؐ پر رسالت اور نبوت کی تکمیل ہوئی ہے. ان آیات پر گفتگو بعد میں ہو گی . پہلے میں چاہتا ہوں کہ ختم نبوت کے جو دو مفاہیم میں نے بیان کیے ہیں‘ ان کے اعتبار سے ہم بعض احادیث نبویہؐ :کا مطالعہ کر لیں.

(۱) جامع ترمذی اور سنن ابی داؤدمیں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : 

اِنَّہٗ سَیَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ‘ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہٗ نَبِیٌّ‘ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ’’میری اُمت میں تیس افراد ایسے اٹھیں گے جو کذاب (انتہائی جھوٹے) ہوں گے‘ ان میں سے ہر شخص اپنے بارے میں یہ گمان کرتا ہو گا کہ وہ نبی ہے‘ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں‘ اب میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.‘‘

اس حدیث میں اس قانونی مفہوم کو بہت ہی عمدگی کے ساتھ واضح کر دیا گیا کہ اگرچہ دجال اٹھیں گے‘ نبوت کے جھوٹے مدعی پیدا ہوں گے‘ لیکن میں آخری نبی ہوں.حضور کے اپنے زمانے میں مدعیانِ نبوت اٹھ گئے تھے‘ پھر اس دور میں تو ان کی رفتار بڑی تیز ہو گئی ہے‘ آخری زمانہ آ رہا ہے‘ تیس کی تعداد اب پوری ہونی ہے. بہاء اللہ ایران میں اٹھا‘ غلام احمد قادیانی ہندوستان میں اٹھا‘ ابھی آپ کے ہاں ایک یوسف کذاب سامنے آیا تھا جس کو ایک شخص نے ساہیوال جیل میں گولی مار دی ہے‘ وہ بھی کہتا تھا کہ میں محمدؐ ہوں‘ 
معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ… پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ ملتان میں کسی نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے. وہ گرفتار کیا گیا ہے اور اس پر مقدمہ چل رہا ہے. یہاں حضور نے فرما دیا کہ میری اُمت میں تیس افراد ایسے ہوں گے جو نبوت کا دعویٰ کریں گے مگر وہ جھوٹے ہوں گے‘ حقیقت یہ ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.
(۲) بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ: نے ارشاد فرمایا:
لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبٌ مِّنْ ثَـلَاثِیْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ (متفق علیہ)
’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تیس کے قریب ایسے افراد نہ اٹھا دیے جائیں جو دجال ہوں گے‘ کذاب ہوں گے‘ ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے.‘‘

(۳) حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی اس مفہوم کی حدیث سنن ابی داؤد میں بایں الفاظ آئی ہے :
لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَخْرُجَ ثَـلَاثُوْنَ دَجَّالُوْنَ‘ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ ’’قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ تیس دجال ظاہر نہ ہو جائیں‘ جن میں ہر شخص یہ کہے گا اور سمجھے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے.‘‘

یہ تین حدیثیں ختم نبوت کا قانونی مفہوم دوٹوک انداز میں بیان کر رہی ہیں کہ محمدرسول اللہ  کے بعد کوئی نبی نہیں. 
ایک اور حدیث ملاحظہ کیجئے. اس میں تکمیل نبوت کا تصور آ رہا ہے‘ یہ بڑی پیاری حدیث ہے. یہ حدیث بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس کی سند بہت قوی ہے. یہ متفق علیہ حدیث ہے‘ یعنی بخاری اور مسلم دونوں میں موجود ہے. حضور فرماتے ہیں:

اِنَّ مَثَلِیْ وَمَثَلَ الْاَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بُنْیَانًا‘ فَاَحْسَنَہٗ وَاَجْمَلَہٗ اِلاَّ مَوْضَعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ مِنْ زَوَایَاہُ‘ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِہٖ وَیَعْجَبُوْنَ لَہٗ وَیَقُوْلُوْنَ : ھَلاَّ وُضِعَتْ ھٰذِہِ اللَّبِنَۃُ؟ قَالَ : فَاَنَا اللَّبِنَۃُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ
’’یقینا میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے ایک عالیشان عمارت تعمیر کی‘ اس نے اس عمارت کو بہت عمدہ اور خوبصورت بنایا‘سوائے اس کے کہ اس کے کونوں میں سے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی. پھر لوگ آ کر اس عمارت کے چکر لگانے لگے اور (اس کی خوبصورتی اور عظمت ِشان پر) تعجب کا اظہار کرنے لگے. اور لوگ کہتے : بھلا یہ اینٹ کیوں نہ لگائی گئی؟ آپ نے فرمایا : وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں.‘‘

مسلم کی ایک روایت میں الفاظ آئے ہیں : 
فَاَنَا مَوْضَعُ اللَّبِنَۃِ ‘ جِئْتُ فَخَتَمْتُ الْاَنْبِیَاءَ ’’پس اُس اینٹ کی جگہ (مکمل کرنے والا) میں ہوں‘ میں آیا تو میں نے انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا.‘‘

ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں : 
خُتِمَ بِیَ الْبُنْیَانُ وَخُتِمَ بِیَ الرُّسُلُ ’’میرے ذریعے سے اس عمارت (قصر رسالت) کی تکمیل ہو گئی اور مجھ پر رسولوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا.‘‘ اب یہاں محل اور محل میں ایک کمی اور اس کمی کا آپ کے ذریعے پورا ہو جانا‘ یہ ہے تکمیل نبوت و رسالت کا معاملہ.