تکمیل رسالت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ محمد رسول اللہ سے پہلے جتنے رسول آئے وہ کسی قوم کے لیے‘ کسی علاقے کے لیے یا کسی شہر کے لیے آئے‘ پوری نوعِ انسانی کے لیے کوئی رسول مبعوث نہیں ہوا. محمد عربی اللہ کے واحد رسول ہیں جن کی بعثت پوری نوعِ انسانی کے لیے ہے . قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوا : اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ ’’ہم نے نوح کو بھیجا اس کی قوم کی طرف‘‘. حضرت ہود علیہ السلام کے بارے میں صراحت ہے کہ آپؑ قومِ عاد کے لیے بھیجے گئے: وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا ؕ حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف بھیجے گئے: وَ اِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام قومِ مدین کی طرف بھیجے گئے وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں اشکال پیدا ہو سکتا ہے. اس لیے کہ حضرت عیسٰی ؑ کے ماننے والے اس وقت پوری دنیا میں ہیں اور ساری نسلوں کے لوگ ہیں. مشرق بعید میں چلے جایئے ‘ عیسائیت موجود ہے.

تاریک براعظم افریقہ کے گھنے ترین جنگلات میں کانگو کے تاس میں پہنچ جایئے‘ وہاں آپ کو عیسائی مل جائیں گے. اس میں کوئی شک نہیں کہ عیسائی مشنریزنے تبلیغ کے ضمن میں بہت کارنامے کیے ہیں اور عیسائیت کو جہاں جہاں پہنچایا ہے ‘ عام انسانوں کا وہاں پہنچنا آسان کام نہیں ہے. آپ کے ملک میں جیکب آباد میں عیسائی مشن قائم ہیں. وہاں اتنی شدید گرمی ہے کہ ہم بھی وہاں پر جاتے ہوئے گھبراتے ہیں‘ لیکن وہاں انہوں نے اپنے مشن قائم کیے. تو اس سے شک ہوتا ہے کہ شاید حضرت مسیح ؑ کی بعثت پوری نوعِ انسانی کی طرف ہو ‘لیکن اس نکتے کو سمجھ لیجئے کہ عقلی اور منطقی اعتبار سے اور منصوص اور منقول ہونے کے اعتبار سے حضرت عیسیٰ ؑکی بعثت صرف بنی اسرائیل کے لیے تھی. قرآن مجید میں سورۂ آل عمران میں کہا گیا : وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ’’وہ رسول تھے بنی اسرائیل کی طرف‘‘. قرآن کی اس نص قطعی کے علاوہ خود انجیل میں موجود ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’میں صرف اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں آیا ہوں‘‘. پھر جب آپ نے اپنے بارہ حواریوں کو بھیجا ہے کہ جاؤ‘ اب جو چیز تمہیں مجھ سے ملی ہے اسے تقسیم کرو‘ لوگوں میں پہنچاؤ‘ تبلیغ کرو‘ تو ساتھ ہی فرما دیا کہ تمہیں Gentiles میں تبلیغ نہیں کرنی ہے. 

یہ Goyems اور Gentiles یہود کی اصطلاحیں ہیں. یہودی سمجھتے ہیں کہ دراصل انسان تو صرف ہم یہودی ہیں‘ باقی جو مختلف نسلوں کے انسان ہیں ‘ یہ انسان نما حیوان ہیں. ان کی شکلیں انسانوں کی سی ہیں‘ حقیقت میں یہ حیوان ہیں. اور ان کے لیے یہودیGoyems اور Gentiles کی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں. انجیل میں موجود ہے کہ Gentiles کو تبلیغ کرنے سے حضرت مسیح علیہ السلام نے روکا. بلکہ انجیل میں جو الفاظ ہیں وہ تو میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے الفاظ نہیں ہو سکتے‘ اس میں یقینا کسی اور نے نمک مرچ ملا دیا ہے. الفاظ یہ ہیں کہ ’’کوئی شخص بھی اپنے بچوں کے حصے کی روٹی کتے کے آگے نہیں ڈالتا.‘‘

بہرحال یہ بات قرآن سے بھی ثابت ہے اور انجیل سے بھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے تھے. یہ تو اصل میں سینٹ پال تھا‘ جس نے حضرت مسیح علیہ السلام کے دین کو ختم کر دیا اور مسیحیت کے نام پر اپنا خود ساختہ مذہب دنیا میں پھیلا دیا‘جیسے ہمارے ہاں عبد اللہ بن سبا یہودی‘ اسلام کا شدید دشمن ‘ایک موقع پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آ گیا اور اس نے مسلمانوں کے اندر رخنہ پیدا کیا‘ بنو اُمیہ اور بنو ہاشم کی پرانی چپقلش کو زندہ کیا اور کہا کہ اللہ کے رسول ؐ کے وصی تو علی ہیں‘ خلافت ان کا حق ہے‘ یہ عثمان جو بیٹھا ہے یہ غاصب ہے‘ اور اس سے پہلے ابوبکر اور عمر بھی غاصب تھے (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین‘ نقل کفر‘ کفر نباشد) بہرحال اسی کے پھیلائے ہوئے فتنے کے نتیجے میں حضرت عثمان ؓ کی شہادت ہوئی. پھر ساڑھے چاربرس تک مسلمان آپس میں لڑتے رہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے دوران ساڑھے چار سال میں ایک لاکھ 
مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں اور نیزوں سے ختم ہوئے. تو وہ جو اسلامی فتوحات کا سیلاب پوری طرح دنیا پر چھا رہا تھا‘جس کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں ؏ 

تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا!

وہ سیل رواں تھم گیا. اسلام کی جو پیش قدمی دائیں اور بائیں دونوں طرف ہو رہی تھی وہ رک گئی. ورنہ اُسی وقت پوری دنیا میں اللہ کے دین کا بول بالا ہو چکا ہوتا. 

اسی طرح نام نہاد سینٹ پال کا معاملہ تھا. جب تک حضرت مسیح علیہ السلام دنیا میں موجود رہے وہ آپؑ کا شدید ترین مخالف رہا.جب حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ نے اٹھا لیا تو اب وہ منافقت کا لبادہ اوڑھ کر آ گیا کہ مجھے مکاشفہ ہوا ہے‘ مسیح ؑ سے ملاقات ہوئی ہے اور اب میں مسیحؑ پر ایمان لے آیا ہوں اور مسیح ؑنے مجھے یہ حکم دیا ہے‘ یہ مقام عطا کیا ہے. پھر وہ متبعین مسیحؑ کا سب سے بڑا لیڈر بن گیا اور اس نے مسیحیت میں وہ تبدیلیاں کیں کہ حضرت مسیحؑ کے دین کو یکسر ختم کر دیا. عبد اللہ بن سبا بھی ہمارے دین کو ختم کر دینا چاہتا تھا‘ لیکن یہ آخری دین تھا‘ اللہ نے اس کی حفاظت فرمائی ہے‘ جبکہ سینٹ پال نے تو فی الواقع حضرت مسیحؑ کے دین کو ختم کر دیا.

سب سے بڑا کام یہ کیا کہ توحید کو تثلیث سے بدل دیا. حضرت مسیحؑ کے کسی قول کے اندر تثلیث موجود نہیں ہے.آپ چاروں اناجیل پڑھ جایئے‘ اگرچہ یہ تحریف شدہ اناجیل ہیں پھر بھی کہیں بھی آپ کو تثلیث کا جملہ نہیں ملے گا. یہ سینٹ پال کی ایجاد ہے. دوسرے یہ کہ شریعت کو ساقط کر دیا. حضرت مسیح علیہ السلام یہ کہہ کر گئے تھے کہ جو موسٰی ؑ کی شریعت ہے وہ تم پر بھی نافذ رہے گی‘ لیکن اُس نے شریعت موسوی کو ساقط کر دیا. تیسرے یہ کہ مسیحیت کی تبلیغ کا دائرہ Gentiles یعنی غیر اسرائیلوں کے اندر وسیع کر دیا‘ورنہ از روئے قرآن اور ازروئے انجیل‘ حضرت مسیح علیہ السلام کے اپنے قول کے مطابق آنجنابؑ کی بعثت صرف بنی اسرائیل کے لیے تھی.

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اور آخری رسول ہیں جن کی بعثت پوری نوعِ انسانی کے لیے ہوئی ہے. یہ مضمون قرآن مجید میں پانچ مرتبہ‘ مختلف الفاظ میں‘ آیا ہے. سب سے واضح انداز میں سورۂ سبا میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں : 
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰک َ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (آیت ۲۸’’(اے محمد !) ہم نے آپ کو نہیں بھیجامگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر‘‘. سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہوا: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ ’’ہم نے آپؐ کو( کسی ایک قوم یا کسی ایک علاقے کے لیے نہیں بلکہ) تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘. نبوت و رسالت ہمیشہ سے رحمت ہے‘ مگر آپؐ پر آ کر یہ رحمت ’’رحمۃ للّعالمین‘‘ بن گئی ہے‘ یہ تکمیل رسالت کا ایک مظہر ہے. اور سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۸ میں خود نبی کریم کی زبانِ مبارک سے یہ کہلوایا گیا: قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا ’’(اے محمد ! ڈنکے کی چوٹ) کہہ دو اے لوگو! (اے بنی نوعِ آدم!) میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں.‘‘