حضرت عثمان ذُوالنورَین رضی اللہ عنہ

میں چونکہ قرآن حکیم کا ایک ادنی ٰ طالب علم ہوں لہذا میری کوشش یہ ہو گی کہ قرآن مجید اور احادیث ِ شریفہ کی روشنی میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے چند مناقب و فضائل اور ان کی سیرت کے چند پہلو آپ کے سامنے رکھوں.

امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فضائل کے ضمن میں سب سے زیادہ مشہور و معروف بات ان کی نبی اکرم سے دامادی کی قرابت ہے جو تقریباً ہرمسلمان کو معلوم ہے. اگرچہ ہمارے نزدیک نسلی تعلق اور قرابت داری اصل اساسِ فضیلت نہیں ہے. قرآن مجید نے تو اس تصور کی کامل نفی کی ہے‘ چنانچہ سورۃ الحجرات میں فرمایا گیا ہے: 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۳
’’لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے (جدا جدا) خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تو باہم شناخت کے لیے (نہ کہ تکبر و افتخار کے لیے) .بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت دار تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے. بے شک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے.‘‘

رنگ و نسل اور خون کے رشتوں کے تعلق کو‘ جنہیں عام طور پر دنیا میں شرف و فضیلت کی اساس سمجھا گیا ہے‘ قرآن مجید نے غلط قرار دیتے ہوئے رنگ و نسل کے تمام بتوں کو توڑ ڈالا ہے اور اصل بنائے شرف و عزت اور کرامت و فضیلت صرف تقویٰ کو قرار دیا ہے. اسی کی تفسیر و تشریح نبی اکرم نے اس طرح فرمائی کہ حضور نے اپنے اہل خاندان کو جمع 
کر کے خطبہ ارشاد فرمایا اور رشتہ داری کے لحاظ سے جو لوگ قریب ترین تعلق کے حامل ہو سکتے ہیں ان کو نام بنام مخاطب فرمایا : 

… یَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ‘ وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ( ) لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا‘ وَیَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ‘ سَلِیْنِیْ مَا شِئْتِ مِنْ مَالِیْ‘ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا (متفق علیہ)
’’…(اے رسول اللہ کے چچا) عباس بن عبدالمطلب‘ میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہ آ سکوں گا‘ اور اے صفیہ‘ رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہ آ سکوں گا‘ اور اے محمد( ) کی بیٹی فاطمہ! تم میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ سکتی ہو‘ لیکن اللہ کے ہاں میں تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا.‘‘

یہ مضمون متعدد احادیث میں بیان ہوا ہے. ترمذی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں: 

یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ ( ) اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ‘ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکِ مِنَ اللّٰہِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا 
’’اے محمد( ) کی بیٹی فاطمہ! اپنے آپ کو آگ سے بچانے کی فکر کرو. اس لیے کہ میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے لیے کسی نقصان یا نفع کا اختیار نہیں رکھتا.‘‘

اسی طرح نبی اکرم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں نسل‘ نسب اور رنگ و خون کو بنائے شرف و فضیلت سمجھنے کے باطل نظریہ پر یہ ارشاد فرما کر کاری ضرب لگائی کہ:

یَا اَیُّھَا النَّاسُ ‘ اَلاَ اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ ‘ وَاِنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ‘ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیٍّ‘ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ‘ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ‘ وَلَا اَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ‘ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی (مسند احمد‘ عن ابی نضرۃ ؓ ) 
’’اے لوگو! جان لو کہ تمہارا ربّ ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہی ہے! جان لو کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر‘ کسی عجمی کو کسی عربی پر‘ کسی گورے کو کسی کالے پر‘ اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے. بنائے فضیلت صرف تقویٰ ہے.‘‘

سورۃ الحجرات کی مذکورہ آیت میں تقویٰ کو فضیلت و اکرام کی بنیاد قرار دینے کے علاوہ قرآن حکیم نے اس بات کو مختلف اسالیب سے بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں 
کوئی حسب و نسب کسی کے کام نہیں آ سکے گا‘ بلکہ ہر انسان کو صرف اس کے اپنے اعمال ہی اللہ کی پکڑ سے بچا سکیں گے. جیسا کہ سورۃ النجم میں فرمایا گیا: وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۹﴾وَ اَنَّ سَعۡیَہٗ سَوۡفَ یُرٰی ﴿۪۴۰اور متعدد مقامات پر فرمایا گیا: اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی .

یہود و نصاریٰ کو یہی پندارلاحق ہو گیا تھا کہ چونکہ وہ انبیاء کی اولاد ہیں اور ان کی نسل میں جلیل القدر پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں‘ لہذا وہ اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہیں اور اس کے بیٹوں کی مانند ہیں: وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ وَ النَّصٰرٰی نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ؕ (المائدۃ:۱۸چنانچہ ان کے اس پندار کو قرآن مجید نے باطل قرار دیا اور فرمایا گیا: وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا لَّا تَجۡزِیۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَیۡئًا وَّ لَا یُقۡبَلُ مِنۡہَا شَفَاعَۃٌ… (البقرۃ:۴۸نیز ان کو متنبہ کیا گیا کہ پچھلوں کی کمائی ان کے لیے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لیے ہے: تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ (البقرۃ:۱۳۴ و۱۴۱) .

پس معلوم ہوا کہ ازروئے قرآن مجید اصل بنائے فضیلت اور اصل بنائے شرف نسل اور خون کا رشتہ نہیں ہے بلکہ ایمان و تقویٰ ہے. بایں ہمہ دو باتیں انتہائی قابل غور ہیں. پہلی یہ کہ نبی اکرمسے قرابت داری اور رشتے داری کا تعلق چاہے کلی طور پربنائے فضیلت نہ ہو لیکن مِنْ وَجْہٍ فضیلت کی ایک بنیاد ضرور ہے.دوسر ی یہ کہ چونکہ عوام کے ذہن عموماً اس بنائے شرف کو قبول کر لیتے ہیں‘ بلکہ عوام کی اکثریت کا تصور فضیلت یہی ہے‘ چنانچہ ہمارے یہاں ایک مکتبہ ٔفکر نے عوام الناس کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسی چیز کو بنائے شرف و فضیلت بنا کر اس کا زبردست چرچا کیا ہے. لہذا اس نقطہ ٔنظر سے اگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی نبی اکرم سے قرابت داری کے پہلو کو نمایاں اور واضح کیا جائے تو کوئی حرج نہیں.