ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جن اہل ایمان کا حضور کے ساتھ قرابت اور رشتہ داری کا تعلق تھا ان کے لیے یہ تعلق بھی ایک بنائے فضیلت ہے‘ لیکن یہ اصل اور واحد بنائے فضیلت نہیں ہے‘ اصل بنائے فضیلت درحقیقت انسان کا اپنا کردار‘ اپنا عمل‘ اپنا تقویٰ اور اپنے اوصاف ہوتے ہیں. عربی کا ایک مشہورشعر ہے کہ ؎ 

اِنَّ الفتٰی مَن یقول ھَا انا ذا
لیس الفتٰی مَن یقول کان ابی کذا

(اصل جواں مرد تو وہ ہے جو یہ کہے کہ ’’یہ میں ہوں‘‘. وہ جواں مرد نہیں جو یہ کہے کہ میرا باپ ایسا تھا.)

اس شعر کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ’’پدرم سلطان بود‘‘‘کہنے والوں کو کبھی بھی دنیا میں مقام عزت حاصل نہیں ہوا ہے. سوال تو یہ ہوتا ہے کہ تم کیا ہو؟ جواں مرد تو وہی کہلانے کا مستحق ہے جو میدان میں آ کر یہ کہے کہ ’’یہ میں موجود ہوں!‘‘ اور اُس میں واقعی جوان مردی کے جوہر موجود ہوں. جوان مرد وہ نہیں ہے جو یہ کہے کہ میرے باپ دادا ایسے شجاع‘ جری اور دلیر تھے. دنیا ایسے دعووں کو کبھی تسلیم نہیں کرتی. اس کی نظر میں قدر و وقعت صرف اس انسان کی ہوتی ہے جس میں اپنے ذاتی اوصافِ حمیدہ موجود ہوں.