میں چاہتا ہوں کہ خاص ذاتی اوصاف اور سیرت و کردار کے اعتبار سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا جائزہ لیا جائے.آپ کو معلوم ہے کہ سورۃ الفاتحہ ہماری نماز کا جزوِ لازم ہے. اس سورہ میں ہم اپنے ربّ سے ہر رکعت میں دعا کرتے ہیں کہ: اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں سیدھے راستے پر چلا. ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام فرمایا‘‘.

لیکن یہاں یہ بیان نہیں ہوا کہ ’’مُنعَم علیہم‘‘ کون لوگ ہیں کہ جن کے راستے کی راہنمائی کی دعا کی جا رہی ہے فہم قرآن کا ایک اصول یہ ہے کہ : اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا چنانچہ سورۃ النساء میں اس بات کو واضح کیا گیا .وہاں فرمایا گیا کہ ان اہل ایمان کو جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو اس دنیا میں لازم کر لیں گے‘ آخرت میں ان لوگوں کی رفاقت و معیت نصیب ہو گی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا‘ اور یہ منعم علیہم اور خوش نصیب لوگ انبیائ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین ہیں. ایسے مبارک اور احسن لوگوں کی رفاقت اہل ایمان کو نصیب ہو گی : 

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ (النساء) 
سورۃ النساء کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ ازروئے قرآن حکیم منعم علیہم کی چار جماعتیں ہیں. ان میں انبیاء کرام علیہم السلام بلند ترین مقام پر فائز ہیں. پھر صدیقین کا درجہ ہے‘ ان کے بعدشہدائے کرام ‘ اور ان کے بعد مؤمنین صالحین ہیں. ان چاروں درجاتِ عالیہ میں سے جہاں تک نبوت کا تعلق ہے تو وہ پہلے ہی کسبی نہیں تھی‘ وہبی تھی.

اور نبی اکرم کی ذاتِ گرامی پر اس کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہو چکا ہے. اب قیامت تک کسی نوع کا کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا‘ نہ ظلی نہ بروزی. اب جو بھی دعوائے نبوت کرے اس کے کذاب ہونے میں کوئی کلام نہیں . البتہ بقیہ جو تین مراتب و مدارج ہیں ان کے دروازے اب بھی کھلے ہیں. اصحابِ ہمت و عزیمت کے لیے اپنی اپنی ہمت‘ کوشش‘ محنت‘ ایثار اور کسی درجے میں اپنی اپنی افتادِ طبع کے اعتبار سے ان تینوں مراتب پر فائز ہونا اب بھی ممکن ہے. البتہ جو نفوسِ قدسی رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی اکرم کے صحبت یافتہ ہیں اور صحابی ہونے کے شرف کے حامل ہیں ان کے رتبے اور مرتبے کو پہنچنا ممکن نہیں. ہاں! ان مقامات ِ عالیہ کے دروازے بند نہیں ہوئے اور مؤمنین کو اپنی اپنی سعی و جہد اور محنت کے نتیجہ میں یہ درجات حاصل ہو سکتے ہیں.