اب اس مقدمے کے ساتھ آخری پارے کی سورۃ اللیل کی چند آیاتِ مبارکہ پر غور کیجیے.اس سورۂ مبارکہ کی آخری چھ آیات کے متعلق تو مفسّرین کا تقریباً اجماع ہے کہ یہ آیات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں‘ جو بلاشبہ صدیق اکبر ہیں‘ اور جن کی شان یہ ہے کہ وہ ’’افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق‘‘ ہیں. ان آیات میں ’’الاتقٰی‘‘ کا مصداق اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں.

ان آیات میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا سب سے نمایاں وصف اللہ کی راہ میں مال صرف کرنا بیان ہوا ہے : الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴿ۚ۱۸﴾ یہ مال اللہ کی راہ میں صدیق اکبرؓ نے اپنے تزکیہ کے لیے صرف کیا. یہ نہیں کہ ان پر کسی کا قرض یا دباؤ تھا ‘بلکہ یہ سارا انفاق لِوَجْہِ اللّٰہ تھا. چنانچہ فرمایا: وَ مَا لِاَحَدٍ عِنۡدَہٗ مِنۡ نِّعۡمَۃٍ تُجۡزٰۤی ﴿ۙ۱۹﴾اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِ الۡاَعۡلٰی ﴿ۚ۲۰﴾ اس مال کے صرف کا ایک ہی مقصد صدیق اکبرؓ کے پیش نظر تھا اور وہ تھا رضائے الٰہی کا حصول یتیموں کی سرپرستی‘ بیواؤں کی دستگیری‘ صاحب ایمان غلاموں کی خرید اور رُستگاری‘ مسافروں کی خبرگیری‘ محتاجوں کی حاجت روائی اور پھر دین حق کے غلبے اور اللہ کے جھنڈے کو بلند کرنے‘ اسلام کی نشرو اشاعت‘ جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے سامان کی فراہمی میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مال و منال خرچ ہو رہے تھے ‘ اور تمنااور آرزو تھی تو صرف یہ کہ اللہ راضی ہو جائے اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنی رضا کی ان الفاظ میں خوشخبری سنائی ہے کہ: وَ لَسَوۡفَ یَرۡضٰی ﴿٪۲۱﴾ امام رازی رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک سورۃ اللیل دراصل ’’سورۃ الصدیق‘‘ ہے اور فوراً مابعد سورۃ الضحیٰ سورۂ محمد ہے یہی نکتہ ہے کہ سورۃ اللیل میں صیغہ غائب میں فرمایا: وَ لَسَوۡفَ یَرۡضٰی ﴿٪۲۱﴾ اور سورۃ الضحیٰ میں واحد حاضر کے صیغہ میں فرمایا: وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی ؕ﴿۵﴾