مقامِ صدیقیت کے جو عناصر ترکیبی ہیں وہ سورۃ اللیل کی اِن تین آیتوں میں بیان ہوئے ہیں : فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰی وَ اتَّقٰی ۙ﴿۵﴾وَ صَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۶﴾فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی ؕ﴿۷﴾ جس صاحب ایمان شخص کی سیرت و کردار میں یہ اجزائے ثلاثہ ’’اِعطاء‘ تقویٰ اور تصدیق بالحسنیٰ‘‘ جمع ہو جائیں اس کے لیے مقامِ صدیقیت کی راہ کشادہ اور آسان ہو جاتی ہے. آخری آیات میں سب سے زیادہ اعطاء کے وصف کو نمایاں کیا گیا‘ جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں: الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴿ۚ۱۸﴾ ایک طرف اِعطاء ہو‘ جود و سخا ہو‘ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر انسان تڑپ اٹھے‘ اس کی تکلیف دور کرنا اگر اس کے بس میں ہو تو اسے دُور کرے‘ کسی کو احتیاج میں دیکھ کر اس کا اپنا آرام حرام ہو جائے‘ اور اس پر یہ دھن سوار ہو کہ کسی طرح اس کی احتیاج کے دُور کرنے میں اس کا تعاون شامل ہو جائے. مقام صدیقیت کا یہ سب سے اعلیٰ وصف ہے. دوسرا وصف ہے تقویٰ طبیعت میں نیکی کا مادہ‘ خیر کا جذبہ‘ نیکی کا فطری میلان‘ برائی اور بدی سے طبعی کراہت اور نفرت‘ برائی سے بچنے کا ذاتی رجحان اور کوشش.گویا خدا خوفی اور خدا ترسی کی ایک کیفیت اور تیسرا وصف جو مقامِ صدیقیت کی تکمیل کرتا ہے‘ اور جس سے کسی کی صدیقیت پر مہر ثبت ہوجاتی ہے وہ ہے : وَ صَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۶﴾ یعنی جو بھی اچھی بات سامنے آئے اس کی فوراً تصدیق کرے. انانیت نہ ہو‘ تکبر نہ ہو کہ میں اگر دوسرے کی بات مان لوں گا تو میں چھوٹا ہو جاؤں گا اور وہ بڑا ہو جائے گا.

ہم خود اپنے اوپر اس بات کو وارد کر کے سمجھ سکتے ہیں کہ بسا اوقات کسی سے بحث ہو رہی ہو اور اثنائے بحث میں انسان محسوس کر بھی لے کہ مقابل کی بات درست ہے‘ لیکن وہ اپنی بات کی اپچ اور انانیت کی بنا پر اپنے موقف کے غلط ہونے کے شعور و ادراک کے باوجود دوسرے کی بات تسلیم کرنے سے احتراز کرتا ہے اور اسے اپنی شکست اور ہیٹی سمجھتا ہے‘ لہذا کٹ حجتی اختیار کرتے ہوئے دلیل پر دلیل وضع کرتا چلا جاتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ کسی کی بات کو مان لینا اور تسلیم کر لینا آسان کام نہیں. جس شخص میں یہ وصف ہو کہ چاہے دشمن بھی ایسی کوئی بات کہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو تو اسے فوراً تسلیم کر ے‘ بلاشبہ وہ صاحب کردار شمار ہو گا. اس طرزِ عمل کا نام ہے تصدیق بالحسنیٰ یہ تینوں اوصاف اِعطاء‘ تقویٰ اور تصدیق بالحسنیٰ جس صاحب ایمان میں جمع ہو جائیں‘ وہ شخص صدیق کہلائے گا. چنانچہ سب سے زیادہ اور سب سے نمایاں طو رپر یہ اوصافِ ثلاثہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں جمع ہوئے‘ اسی لیے وہ صدیق اکبر ہیں. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ’’صدیق‘‘ صرف وہی ہیں‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدیقین کی جماعت میں حضرت ابوبکرؓ دراصل ’’صدیق اکبر‘‘ کے مقام پر فائز ہیں‘ وہ صدیقین کی جماعت کے سرخیل اور گل سرسبد ہیں. اس کی دلیل سورۃ النساء کی محولہ بالا آیت میں موجود ہے‘ جس میں جمع کا صیغہ ’’صدیقین‘‘ استعمال ہوا ہے. 
یہی بات سورۃ الحدید کی آیت ۱۸ میں بایں الفاظ بیان ہوئی ہے : 
اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿۱۸﴾ 

’’بے شک صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں‘ اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دیں‘ ان کے لیے دوگنا اجر ہے اور بہترین بدلہ ہے( جس میں اضافہ ہوتا رہے گا)‘‘.اس آیت کریمہ میں ایک اصطلاح ’’صدقہ‘‘ کی استعمال ہوئی ہے اور ایک ’’اللہ کو قرضِ حسن دینے کی‘‘. ان دونوں اصطلاحوں کے علیحدہ علیحدہ مفاہیم ہیں. ’’صدقہ‘‘ اس انفاق کو کہتے ہیں جو یتیموں‘ بیواؤں ‘ محتاجوں‘ مسافروں اور حاجت مندوں کی خبرگیری اور حاجت روائی کے لیے صرف کیا جائے‘ جبکہ اللہ کے ذمے ’’قرضِ حسن‘‘ دراصل وہ انفاق مال ہے جو اللہ کے دین کے غلبے‘ نشرواشاعت اور دعوت و تبلیغ کی راہ میں کیا جائے‘جس کا مقصود و مطلوب ہو : لِتَـکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا. سورۃ الحدید میں اللہ کے دین کے غلبے کے لیے مسلمانوں کو ترغیب و تشویق کا مضمون تانے بانے کی طرح جڑ اہوا ہے. چنانچہ فرمایا: مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَ لَہٗۤ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۚ۱۱﴾ ’’کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے تاکہ وہ اس میں مسلسل اضافہ فرماتا رہے؟ ایسے شخص کے لیے اجر کریم ہے‘‘. یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی اور رحیمی ہے کہ وہ اس مال کو جو اُس کے دین کی سربلندی کے لیے صرف کیا جائے‘ اپنے ذمے ’’ قرضِ حسنہ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ تو الغنی ہے‘ اسے کسی کے مال کی کوئی حاجت نہیں‘ اس کی شان تو قرآن میں وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے. لیکن وہ اپنے دین کی راہ میں خرچ کیے جانے والے مال کو اپنے ذمے قرضِ حسن سے تعبیر فرماتا ہے‘ جس سے محض مسلمانوں کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی مقصود ہے.

اسی سورۃ الحدید میں صاحب احتیاج لوگوں کی حاجت روائی اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے مال صرف کرنے والوں سے اجر کریم کے وعدے کے بعد فرمایا: 
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ (آیت ۱۹’’اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے‘ وہی صدیقین اور شہداء میں سے ہیں. ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہے‘‘. یعنی جن لوگوں میں اِعطاء کا وصف موجود ہے‘ جو بخیل نہیں‘ جود و سخا سے متصف ہیں‘ جو غرباء ‘ یتامیٰ ‘ مساکین اور دوسرے صاحب احتیاج لوگوں کی خبرگیری اور حاجت روائی‘ نیز اللہ کے دین کے غلبے اور نشرو اشاعت کے لیے اپنا مال صرف کرتے ہیں‘ یہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے کشت ِ قلوب میں ایمان کی تخم ریزی ہوتی ہے تو وہ پورے طو رپربارآور ہوتا ہے اور خوب برگ و بار لاتا ہے. یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بیج ایک ہو ‘لیکن اگر زمین مختلف ہو تو نتائج بھی مختلف برآمد ہوتے ہیں. ہر بیج کی نشوونما اور بارآوری کے لیے لازم ہے کہ زمین اس بیج کے لیے سازگار ہو. اگر زمین بنجر ہوگی تو بیج ضائع ہو جائے گا. اسی بات کو نبی اکرم نے اپنے ارشادِگرامی سے بھی واضح کیا اور اسی کی ایک تمثیل انجیل میں بھی بیان ہوئی ہے‘ جس کا مفاد یہ ہے کہ زمینوں کے فرق سے پیداوار میں زمین و آسمان کا تفاوت ہو جائے گا ایک کشتِ قلب وہ ہے جس میں اعطاء‘ صدقہ اور انفاق فی سبیل اللہ کا ہل چل چکا ہے. اس میں جب ایمان کا بیج پڑے گا تو بارآور ہو گا اور اس کو صدیقیت و شہادت کے مقاماتِ عظمیٰ تک رسائی حاصل ہوجائے گی: اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ’’یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے نزدیک صدیق بھی ہیں اور شہید بھی‘‘ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ ’’یہی وہ لوگ ہیں جن کا بدلہ بھی اللہ کے ہاں محفوظ ہے اورجن کا نور بھی محفوظ ہے.‘‘