سب سے پہلے ’’اِعطاء‘‘ کے وصف کو لیجیے جو مقامِ صدیقیت کا وصف ِ اوّل ہے. یہ وصف حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت میں بہت نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے. امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی معرکۃ الآرا ء کتاب ’’اِزَالۃُ الخِفاء عن خِلافۃِ الخُلفاء‘‘ میں محققین کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ’’ذُوالنورین‘‘ کا جو لقب ملا تو اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان میں دو سخاوتیں جمع ہو گئی تھیں. ایک سخاوت اسلام لانے سے پہلے کی زندگی کی ہے اور دوسری سخاوت کی شان وہ ہے کہ جو اسلام لانے اور نبی اکرم کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے بعد ظاہر ہوئی. اصلاً تو آپؓ کو ’’ذوالنورین‘‘ کا لقب حضور کی دو صاحبزادیوں کا یکے بعد دیگرے آپؓ کے حبالہ ٔ عقد میں آنے کی وجہ سے ملا تھا‘ لیکن حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے نزدیک محققین ِاُمت کا یہ قول بھی سند کا درجہ رکھتا ہے کہ اس معزز لقب کا باعث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زندگی میں اسلام سے قبل اور قبولِ اسلام کے بعد کی جود وسخا بھی ہے.

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عمر نبی اکرم سے پانچ سال کم تھی. ان کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی بڑے گہرے مراسم تھے. ظاہر ہے کہ گہرے اور مضبوط دوستانہ تعلقات و مراسم میں طبیعت و مزاج کی یگانگی اور موافقت موجود ہونا ضروری ہوتا ہے. لہذا جس طرح اسلام سے قبل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیکر جود وسخا اور نوعِ انسانی کی ہمدردی سے معمور شخصیت تھے اسی کا عکس کامل حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی تھے‘ اسلام لانے کے بعد جس طرح صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا اثاثہ اور مال و منال دین حق کی سربلندی اور غلبے کے لیے لگایا اور ان غلاموں کوجو دولت ایمان سے مشرف ہونے کے باعث اپنے آقاؤں کے ہاتھوں ظلم کی چکی میں پس رہے تھے‘ اپنی جیب خاص سے خرید کر آزاد کیا‘ اور غزوؤ تبوک کے موقع پر اپنا پورا گھر کا اثاثہ سمیٹ کر نبی اکرم کے قدموں میں لاڈالا‘ کم و بیش یہی کیفیت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بھی رہی ہے‘ اور انہوں نے نہایت ہی نامساعد حالات میں اپنے سرمائے سے دین کی خدمت کی ہے‘ جس کی چند مثالیں آگے بیان ہوں گی. اس وقت جو بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر صدیق کی سیرت میں صدیقیت کبریٰ کا عکس ضرور نظر آئے گا. چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت میں یہ عکس بتمام و کمال موجود ہے اور اسی وصف کے باعث ان کا دوسرا معزز لقب ’’غنی‘‘ بھی ہے.