ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسلمانوں کے لیے پانی کی قلت ہوئی اور مسلمانوں کی عورتیں بئر رومہ سے‘ جو ایک یہودی کی ملکیت تھا اور مدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر تھا‘ پانی بھرنے جاتی تھیں تو یہودی ان پر فقرے کستے تھے اور اس طرح مسلمانوں کی عزت مجروح ہوتی تھی. حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے میٹھے پانی کے اس کنویں کے مالک یہودی کو منہ مانگی بھاری قیمت ادا کر کے بئر رومہ خریدا اور اُسے مسلمانوں کے استفادے کے لیے وقف کر دیا نبی اکرم کا ارشاد گرامی ہے : اَلنَّاسُ مَعَادِنُ یعنی ’’لوگ معدنیات کی مانند ہوتے ہیں‘‘.سونے کی دھات جب ناصاف اور کچی حالت میں ہو تب بھی تو سونا ہی ہے. یہ اور بات ہے کہ اس کے ساتھ مٹی‘ چونا اور دوسری چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں. اس کچی دھات کو کٹھالی میں ڈالیے تو خالص سونا فراہم ہو جائے گا‘اس کی ماہیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی. یہی بات ہے جو اس حدیث مبارکہ میں بیان ہوئی ہے : خِیَارُھُمْ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ ِفی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقِھُوْا (صحیح البخاری) ’’ان میں سے جو دورِ جاہلیت میں بہترین لوگ تھے وہی اسلام میں بھی بہترین لوگ ہیں ‘جبکہ وہ دین کا فہم حاصل کرلیں‘‘.سونا جب تپ تپا کر کٹھالی سے برآمد ہوتا ہے تو زرِ خالص ہو جاتا ہے. یہی معاملہ صدیقین کا ہوتا ہے . ان میں جو اوصاف ایمان سے قبل موجود ہوتے ہیں وہ ایمان کی بھٹی میں سے گزر کر مزید نکھر جاتے ہیں اور پختہ ہو جاتے ہیں.اسی اعتبار سے صدیق اکبر اور عثمان غنی رضی اللہ عنہماکی سیرتوں کے دونوں ادوار میں فیاضی اور سخاوت اپنے عروج پر نظر آتی ہے.