غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا جذبہ ٔانفاق فی سبیل اللہ دیدنی تھا. یہ وہ موقع تھا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تو اس مقامِ بلند ترین تک پہنچے کہ کل اثاثُ البیت لا کرحضور کے قدموں میں ڈال دیا‘ گھر میں جھاڑوتک نہ چھوڑی اور جب حضور نے فرمایا کہ ’’کچھ فکر عیال بھی چاہیے‘‘ تو اس رفیق غار اور عشق و محبت کے رازدار نے کہا کہ ؎ 

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق ؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس!

یہی وہ موقع تھا کہ جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ وہ اس مرتبہ انفاق میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بازی لے جائیں گے‘ کیونکہ حسن اتفاق سے اس وقت‘ خود حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بقول‘ ان کے پاس کافی مال تھا. انہوں نے اپنے تمام اثاثے کے دو مساوی حصے کیے‘ ایک حصہ اہل وعیال کے لیے چھوڑا اور دوسرا حصہ نبی اکرم کی خدمت میں پیش کر دیا‘ لیکن جب جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا یہ ایثار ان کے سامنے آیا کہ گھر میں جھاڑو پھیر کر سب کچھ خدمت ِ اقدس میں لاڈالا تو وہ بے اختیار پکار اٹھے کہ صدیق اکبرؓ سے آگے بڑھنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے.

ذرا چشم تصور سے دیکھئے کہ غزوۂ تبوک کی تیاری ہو رہی ہے‘ سینکڑوں میل دور کا سفر درپیش ہے‘ سخت ترین گرمی کا موسم ہے‘ جہاد کے لیے نفیر عام ہے‘ وقت کی عظیم ترین طاقت سلطنت روماسے مسلح تصادم کا مرحلہ سامنے ہے. مسجد نبویؐ میں نبی اکرم منبر پر تشریف فرما ہیں اور لوگوں کو بار بار ترغیب و تشویق دلا رہے ہیں کہ وہ اس غزوہ کے لیے زیادہ سے زیادہ انفاق کریں‘ آلاتِ حرب و ضرب اور سامانِ رسد و نقل و حمل مہیا کریں‘ یا اس کی فراہمی کے لیے نقد سرمایہ فراہم کریں. اس موقع پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوتے ہیں اور بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں کہ حضورؐ ! میری طرف سے ایک سو اونٹ مع ساز و سامان حاضر ہیں. حضور کو علم ہے کہ کتنی عظیم مہم درپیش ہے اور کتنا ساز و سامان درکار ہے‘ لہذا حضور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو انفاق کی مزید ترغیب دیتے ہیں. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پھر کھڑے ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ حضورؐ ! میں مزید ایک سو اونٹ مع ساز وسامان پیش کرتا ہوں. 
حضور لوگوں کو مزید ترغیب دیتے ہیں. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تیسری بار پھر کھڑے ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ میں ساز و سامان سمیت ایک سو اونٹ مزید فی سبیل اللہ نذر کرتا ہوں. یعنی اس مرد غنی ؓ کی طرف سے اس غزوہ کے لیے تین سو اونٹ مع ساز وسامان پیش کیے جاتے ہیں. حدیث میں آتا ہے کہ اس موقع پر حضور منبر سے اترے اور دو مرتبہ فرمایا کہ اس کے بعد عثمانؓ کو کوئی بھی عمل (آخرت میں) نقصان نہیں پہنچاسکتا‘‘. اس واقعہ کے متعلق پوری حدیث درج ذیل ہے. حضرت عبدالرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: 

شَھِدتُ النَّبِیَّ  وھو یَحُثُّ عَلٰی تَجْھِیْزِ جَیْشِ الْعُسْرَۃِ ‘ فَقَامَ عُثْمَانُ ابْنُ عَفَّان‘ فَقَالَ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ‘ عَلَیَّ مِائَۃُ بَعِیْرٍ بِاَحْلَاسِھَا وَاَقْتَابِھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ ثُمَّ حَضَّ عَلَی الْجَیْشِ‘ فَقَامَ عُثْمَانُ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ: عَلَیَّ مِِائَتَا بَعِیْرٍ بِاَحْلَاسِھَا وَاَقْتَابِھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ ثُمَّ حَضَّ عَلَی الْجَیْشِ ‘ فَقَامَ عُثْمَانُ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ : عَلَیَّ ثَلَاثُ مِائَۃِ بَعِیْرٍ بِاَحْلَاسِھَا وَاَقْتَابِھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ فَاَنَا رَاَیْتُ النَّبِیَّ  یَنْزِلُ عَلَی الْمِنْبَرِ وَھُوَ یَـقُوْلُ : مَا عَلٰی عُثْمَانَ مَا فَعَلَ بَعْدَ ھٰذِہٖ‘ مَا عَلٰی عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ھٰذِہٖ (سنن الترمذی‘ ابواب المناقب) 
اسی جیش عسرہ کے لیے حضور نقد سرمائے کے انفاق کی بھی ترغیب دلاتے ہیں تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے مستقر پر جاتے ہیں اور اپنے گماشتوں کو ہدایت کرتے ہیں کہ جس قدر بھی نقد سرمایہ جمع ہو سکے فوراً پیش کرو. چنانچہ ایک ہزار دینار (اشرفیاں) ایک تھیلی میں بھر کر نبی اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے ہیں. 

حضور منبر پر تشریف فرما ہیں‘ عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضور کی گود میں وہ اشرفیاں اُلٹ دیتے ہیں.بعض روایات میں آتا ہے کہ جوشِ مسرت سے چہرۂ انورؐ کی رنگت اتنی سرخ ہو جاتی ہے کہ جیسے رخسار مبارک پر سرخ انار نچوڑ دیے گئے ہوں. یعنی فرطِ مسرت سے حضور کا چہرۂ مبارک گلنار ہو گیا تھا. آپؐ جوشِ مسرت کے ساتھ اپنی گود میں ہاتھ ڈال کر ان اشرفیوں کو بار بار الٹ پلٹ رہے تھے. اس موقع پر بھی حضورؐ دو مرتبہ فرماتے ہیں کہ : ’’آج کے دن کے بعد عثمانؓ کو (آخرت میں) کوئی عمل ضرر نہیں پہنچا سکتا‘‘. حدیث کے الفاظ یہ ہیں. حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں: 
جَاءَ عُثْمَانُ اِلَی النَّبِیِّ  بِاَلْفِ دِیْنَارٍ فِیْ کُمِّہٖ حِیْنَ جَھَّزَ جَیْشَ َّ َ الْعُسْرَۃِ ‘ فَنَثَرَھَا فِیْ حِجْرِہٖ‘ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ : فَرَاَیْتُ النَّبِیَّ  یُقَلِّبُھَا فِیْ حِجْرِہٖ وَیَقُوْلُ : مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْیَوْمِ - مَرَّتَیْنِ 
(رواہ الترمذی‘ ورواہ ایضًا احمد فی ’’المسند‘‘)
اس کا دور دور بھی امکان نہیں تھا کہ آنحضور کی اس بشارت کے برتے پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جیسے مؤمن صادق سے اللہ اور اس کے رسول کی کوئی معصیت صادر ہوگی. حضور کا یہ ارشاد دراصل حضرت عثمان غنی ؓ کے اس بلند ترین مقام و مرتبہ کے اظہار کے لیے تھا جو انہوں نے انفاق فی سبیل اللہ کی بدولت حاصل کیا تھا.

اسی غزوۂ تبوک کے سلسلہ میں 
اِزَالَۃُ الْخِفَاء میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک روایت نقل کی ہے کہ تبوک کے سفر میں جتنی بھوک پیاس اور سواری کی تکلیف درپیش آئی اتنی کسی دوسرے غزوے میں نہیں آئی. دورانِ سفر ایک مرتبہ سامانِ خورد و نوش ختم ہو گیا. حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے مناسب سامان اونٹوں پر لاد کر حضور کی خدمت میں روانہ کیا. اونٹوں کی تعداد اتنی کثیر تھی کہ ان کی وجہ سے دُور سے تاریکی نظر آرہی تھی جس کودیکھ کر رسول اللہ نے فرمایا:’’لوگو! تمہارے واسطے بہتری آگئی ہے‘‘. اونٹ بٹھائے گئے اور جو کچھ ان پر سامان لدا ہوا تھا‘ اُتارا گیا. حضور نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا:’’میں عثمانؓ سے راضی ہوں‘ اے اللہ تو بھی عثمانؓ سے راضی ہوجا‘‘. یہ فقرہ حضور نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا. پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کہا کہ’’تم بھی عثمانؓ کے حق میں دعا کرو‘‘.