اِزَالۃُ الخِفاء‘‘ ہی میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے ایک روایت نقل کی ہے . اُمّ المومنین رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ ’’رسول اللہ کے گھر والوں پر چار دن بے آب و دانہ گزر گئے. نبی اکرم نے مجھ سے پوچھا: ’’اے عائشہ! کہیں سے کچھ آیا؟‘‘ میں نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ آپؐ کے ہاتھ سے نہ دلوائے تو مجھے کہاں سے مل سکتا ہے!‘‘ اس کے بعد حضور نے وضو کیا اور اللہ کی تسبیح کرتے ہوئے باہر تشریف لے گئے. کبھی یہاں نماز پڑھتے کبھی وہاں اور اللہ سے دعا فرماتے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ تیسرے پہر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے‘ انہوں نے پوچھا : ’’اے ماں! رسول اللہ کہاں ہیں؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’بیٹے! محمد( ) کے گھر والوں نے چار دن سے کچھ نہیں کھایا. آپؐ اسی پریشانی میں باہر تشریف لے گئے ہیں‘‘. یہ سن کر حضرت عثمانؓ رو پڑے. فوراً گھر واپس گئے اور آٹا‘ گیہوں اور خرمے اونٹوں پر لدوائے اور کھال اتری ہوئی بکری اور ایک تھیلی میں تین سو درہم لے کر آئے. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ ’’حضرت عثمانؓ نے مجھے قسم دلائی کہ جب کبھی ضرورت پیش آئے‘ مجھے ضرور خبر کیجیے گا‘‘ کچھ دیر بعد حضور تشریف لائے اور پوچھا: ’’میرے بعد تم کو کچھ ملا؟‘‘ میں نے کہا : ’’اے اللہ کے رسولؐ آپ اپنے اللہ سے دعا کرنے گئے تھے اور اللہ آپؐ کی دعا رد نہیں کرتا!‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے تمام واقعہ بیان کر دیا. رسول اللہ یہ سن کر پھر مسجد میں چلے گئے اور میں نے سنا کہ آپؐ ہاتھ اٹھا کر دعا فرما رہے تھے کہ ’’اے اللہ! میں عثمان ؓ سے راضی ہو گیا ‘ تُو بھی اس سے راضی ہو جا. اے اللہ! میں عثمانؓ سے راضی ہو گیا ‘ تو بھی اس سے راضی ہوجا!‘‘

صدقہ و خیرات میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بے حد بلند تھا. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے ان کے صدقے کا ایک عجیب ماجرا بیان کیا ہے جو دور صدیقی میں پیش آیا تھا. یہ واقعہ بھی شاہ صاحبؒ نے اپنی کتاب 
’’ازالۃ الخِفاء‘‘ میں درج کیا ہے.حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا‘ سامانِ خورد و نوش کے ذخیرے ختم ہو گئے.

لوگوں نے حضرت صدیق اکبرؓ سے فریاد کی تو انہوں نے فرمایا کہ ان شاء اللہ کل تمہاری تکلیف دور ہو جائے گی . دوسرے روز علی الصبح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے مدینہ پہنچے. مدینہ کے تاجر علی الصبح حضرت عثمانؓ کے گھر پہنچے اور ان کو پیشکش کی کہ وہ یہ غلہ ان کے ہاتھ فروخت کر دیں تاکہ بازار میں بیچا جا سکے اور لوگوں کی پریشانیاں دور ہوں. حضرت عثمانؓ نے کہا : میں نے یہ غلہ شام سے منگایا ہے‘ تم میری خرید پر کیا نفع دو گے؟ تاجروں نے دس کے بارہ (یعنی بیس فیصد منافع) کی پیشکش کی.حضرت عثمانؓ نے کہا : مجھے اس سے زیادہ ملتے ہیں. تاجروں نے کہا ہم دس کے چودہ(چالیس فیصد منافع) دیں گے. آپؓ نے کہا : مجھے اس سے بھی زیادہ ملتے ہیں. لوگوں نے پوچھا کہ ہم سے زیادہ دینے والا کون ہے؟ مدینہ میں تجارت کرنے والے تو ہم ہی لوگ ہیں حضرت عثمانؓ نے کہا: مجھے تو ہر درہم کے بدلے میں دس ملتے ہیں. کیا تم اس سے زیادہ دے سکتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا : نہیں! حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے تاجرو! میں تم لوگوں کو گواہ کرتا ہوں کہ میں یہ تمام غلہ مدینہ کے محتاجوں پر صدقہ کرتا ہوں.‘‘

حضرت ابن عباسؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ اسی رات میں نے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا کہ نور کی ایک چھڑی آپؐ کے دست مبارک میں ہے اور آپؐ کے جوتے کے تسمے بھی نور کے ہیں ‘اور آپؐ بعجلت کہیں تشریف لے جانے کا ارادہ فرما رہے ہیں. میں نے عرض کیا کہ حضورؐ میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں آپؐ کا بے حد مشتاق ہوں‘ مجھ پر بھی کچھ توجہ فرمایئے.حضور نے فرمایا: ’’میں عجلت میں ہوں‘ اس وجہ سے کہ عثمان غنیؓ نے اللہ کی راہ میں ایک ہزار اونٹ غلہ صدقہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کا صدقہ قبول کر لیا ہے. اس کے عوض جنت میں ان کی شادی ہے‘ میں اسی میں شرکت کے لیے جا رہا ہوں.‘‘

اللہ ! اللہ! یہ ہے اِعطاء کی شان‘ جس کے حامل نظر آتے ہیں حضرت عثمان غنی‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ. اس وصف میں پیکر اکمل و افضل اور نبی اکرم کے عکس کامل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور صدیق اکبرؓ کے عکس کامل نظر آتے ہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ.

اب ذرا سورۃ الحدید کی ان دو آیات پر ایک نگاہِ بازگشت ڈال لیجیے :
اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقۡرَضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَہُمۡ وَ لَہُمۡ اَجۡرٌ کَرِیۡمٌ ﴿۱۸﴾وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡ ؕ (الحدید)